Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَقَفَّيْنَا عَلَىٰٓ ءَاثَٰرِهِم بِعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًۭا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلتَّوْرَىٰةِ ۖ وَءَاتَيْنَٰهُ ٱلْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًۭى وَنُورٌۭ وَمُصَدِّقًۭا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلتَّوْرَىٰةِ وَهُدًۭى وَمَوْعِظَةًۭ لِّلْمُتَّقِينَ ﴾
“And We caused Jesus, the son of Mary, to follow in the footsteps of those [earlier prophets], confirming the truth of whatever there still remained of the Torah; and We vouchsafed unto him the Gospel, wherein there was guidance and light, confirming the truth of whatever there still remained of the Torah, and as a guidance and admonition unto the God-conscious.”
خدا کی کتاب اس لیے آتی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی ابدی فلاح کی راہ دکھائے۔ خواہش پرستی کے اندھیرے سے نکال کر ان کو حق پرستی کی روشنی میں لائے۔ جو خدا سے ڈرنے والے ہیں وہ خدا کی کتاب کو خدا اور بندے کے درمیان مقدس عہد سمجھتے ہیں جس میں اپنی طرف سے کمی یا زیادتی جائز نہ ہو۔ وہ اس کی تعمیل اس طرح کرتے ہیں جس طرح کسی کے پاس کوئی امانت ہو اور وہ ٹھیک ٹھیک اس کی ادائیگی کرے۔ اللہ کی کتاب بندوں کے حق میں اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے معاملات میں اسی کی ہدایت پر چلا جائے اور باہمی نزاعات میں اسی کے احکام کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ خدا کی کتاب کو اگریہ حاکمانہ حیثیت نہ دی جائے بلکہ اپنے معاملات ونزاعات کو اپنی دنیوی مصلحتوں کے تابع رکھا جائے تو یہ خدا کی کتاب سے انکار کے ہم معنی ہوگا، خواہ تبرک کے طور پر اس کا کتنا ہی زیادہ ظاہری احترام کیا جاتا ہو۔ جو لوگ اپنے كومسلم کہیں مگر ان کا حال یہ ہو کہ وہ اختیار اور آزادی رکھتے ہوئے بھی اپنے معاملات کا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق نہ کریں بلکہ خواہشوں کی شریعت پر چلیں، وہ اللہ کی نظر میں کافر اور ظالم اور فاسق ہیں۔ وہ خدا کی حاکمانہ حیثیت کا انکار کرنے والے ہیں، وہ حق کے تلف کرنے والے ہیں، وہ اطاعت خداوندی کے عہد سے نکل جانے والے ہیں۔ حکم شریعت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے بعد آدمی کی کوئی حیثیت خدا کے یہاں باقی نہیں رہتی۔ قصاص کے سلسلے میں شریعت کا تقاضا ہے کہ کسی کی حیثیت کی پروا کیے بغیر اس کا نفاذ کیاجائے۔ تاہم بعض اوقات آدمی کی جارحیت اس کی شرپسندی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ وقتی جذبہ کے تحت صادر ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر مجروح جارح کو معاف کردے تو یہ اس کی طرف سے جارح کے لیے ایک صدقہ ہوگا اور سماج میں وسعت ظرف کی فضا پیدا کرنے کا ذریعہ۔