slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 48 من سورة سُورَةُ المَائـِدَةِ

Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًۭا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ ٱلْحَقِّ ۚ لِكُلٍّۢ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةًۭ وَمِنْهَاجًۭا ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَىٰكُمْ ۖ فَٱسْتَبِقُوا۟ ٱلْخَيْرَٰتِ ۚ إِلَى ٱللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًۭا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾

“And unto thee [O Prophet] have We vouchsafed this divine writ, setting forth the truth, confirming the truth of whatever there still remains of earlier revelations and determining what is true therein. Judge, then, between the followers of earlier revelation in accordance with what God has bestowed from on high, and do not follow their errant views, forsaking the truth that has come unto thee. Unto every one of you have We appointed a [different] law and way of life. And if God had so willed, He could surely have made you all one single community: but [He willed it otherwise] in order to test you by means of what He has vouchsafed unto, you. Vie, then, with one another in doing good works! Unto God you all must return; and then He will make you truly understand all that on which you were wont to differ.”

📝 التفسير:

یہاں ’’کتاب‘‘ سے مراد دین کی اصلی اور اساسی تعلیمات ہیں۔ اللہ کی یہ کتاب ایک ہی کتاب ہے اور وہی ایک کتاب، زبان اور ترتیب کے فرق کے ساتھ، تمام نبیوں کی طرف اتاری گئی ہے۔ تاہم دین کی حقیقت جس ظاہری ڈھانچہ میں متشکل ہوتی ہے اس میں مختلف انبیاء کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ نہیں کہ دین کے اتارنے میںکوئی ارتقائی ترتیب ہے۔ یعنی پہلے کم ترقی یافتہ اور غیر کامل دین اتارا گیا اور اس کے بعد زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ کامل دین اترا۔ اس فرق کی وجہ خدا کی حکمت ابتلا ہے، نہ کہ حکمت ارتقاء۔ قرآن کے مطابق ایسا صرف اس لیے ہوا کہ لوگوں کو آزمایا جائے۔ زمانہ گزرنے کے بعد ایساہوتا ہے کہ دین کی اندرونی حقیقت گم ہوجاتی ہے، اور ظواہر ورسوم مقدس ہو کر اصل بن جاتے ہیں۔ لوگ عبادت اس کو سمجھ لیتے ہیں کہ ایک خاص ڈھانچہ کو ظاہری شرائط کے ساتھ دہرالیا جائے۔ اس لیے ظاہری ڈھانچہ میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں تاکہ ڈھانچہ کی مقصودیت کا ذہن ختم ہو اور خدا کے سوا کوئی اور چیز توجہ کا مرکز نہ بننے پائے۔ اس کی ایک مثال قبلہ کی تبدیلی ہے۔ بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ وہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کریں۔ یہ حکم صرف رخ بندی کے لیے تھا۔ مگر دھیرے دھیرے ان کا ذہن یہ بن گیا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے ہی کا نام عبادت ہے۔ اس وقت سابقہ حکم کو بدل کر کعبہ کو قبلہ بنا دیا گیا۔ اب کچھ لوگ سابقہ روایت سے لپٹے رہے اور کچھ لوگوں نے خدا کی ہدایت کو پالیا۔ اس طرح تبدیلیٔ قبلہ سے یہ کھل گیا کہ کون درو دیوار کو پوجنے والا تھا اور کون خدا کو پوجنے والا (بقرہ ، 2:143 )۔ اب اس قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ کیوں کہ ڈھانچہ کو نبی بدلتا ہے اور نبی اب آنے والا نہیں۔ تاہم جہاں تک اصل مقصود کا تعلق ہے وہ بدستور باقی ہے۔ اب بھی خدا کے یہاں اس کا سچا پرستار وہی شمار ہوگا جو ظاہری ڈھانچہ کی پابندی کے باوجود ظاہری ڈھانچہ کو مقصودیت کا درجہ نہ دے، جو ظواہر سے ذہن کو آزاد کرکے خدا کی عبادت کرے۔ پہلے یہ مقصد ظاہری ڈھانچہ کو توڑ کر حاصل ہوتا تھا اب اس کو ذہنی شکست و ریخت (deconditioning)کے ذریعہ حاصل کرناہوگا۔ ظواہر کے نام پر دین میں جوجھگڑے ہیں وہ صرف اس لیے ہیں کہ لوگوں کی غفلت نے ان کو اصل حقیقت سے بے خبر کردیا ہے۔ اگر حقیقت کو وہ اس طرح پالیں جس طرح وہ آخرت میں دکھائی دے گی تو تمام جھگڑے ابھی ختم ہوجائیں۔