Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَفَحُكْمَ ٱلْجَٰهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ ٱللَّهِ حُكْمًۭا لِّقَوْمٍۢ يُوقِنُونَ ﴾
“Do they, perchance, desire [to be ruled by] the law of pagan ignorance? But for people who have inner certainty, who could be a better law-giver than God?”
قرآن اور دوسرے آسمانی صحیفے الگ الگ کتابیں نہیں ہیں۔ یہ سب ایک ہی کتابِ الٰہی کے مختلف ایڈیشن ہیں جس کو یہاں ’’الکتاب‘‘ کہاگیا ہے۔ خدا کی طرف سے جتنی کتابیں آئیں، خواہ وہ جس دور میں اور جس زبان میں آئی ہوں، سب کا مشترک مضمون ایک ہی تھا۔ تاہم پچھلی کتابوں کے حاملین بعد کے زمانہ میں ان کو ان کی اصلی صورت میں محفوظ نه رکھ سکے۔ اس لیے خدا نے ایک کتاب مُہَیْمِنْ (قرآن) اتارا۔ یہ خدا کی طرف سے اس کی کتاب کا مستند ایڈیشن ہے اور اس بنا پر وہ ایک کسوٹی ہے جس پر جانچ کر معلوم کیا جائے کہ بقیہ کتابوں کا کون سا حصہ اصلی حالت میں ہے اور کون سا وہ ہے جو بدلا جاچکا ہے۔ یہود خدا کے سچے دین کے ساتھ اپنی باتوں کو ملا کر ایک خود ساختہ دین بنائے ہوئے تھے۔ اس خود ساختہ دین سے ان کی عقیدتیں بھی وابستہ تھیں اور ان کے مفادات بھی۔ اس لیے وہ کسی طرح تیار نہ تھے کہ اس کو چھوڑ کر پیغمبر کے لائے ہوئے بے آمیز دین کو مان لیں۔ انھوںنے حق کے آگے جھکنے کے بجائے اپنے لیے يه طریقہ پسند کیا کہ وہ حق کے علم بردار کو اتنا زیادہ پریشان کریں کہ وہ خود ان کے آگے جھک جائے، وہ خدا کے سچے دین کو چھوڑ کر ان کے اپنے بنائے ہوئے دین کو اختیار کرلے۔ خدا اگر چاہتا تو پہلے ہی مرحلہ میں ان ظالموں کا ہاتھ روک دیتا اور وہ حق کے داعی کو ستانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ مگر اللہ نے انھیں چھوٹ دی کہ وہ اپنے ناپاک منصوبوں کو بروئے کار لاسکیں۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ یہ بات پوری طرح کھل جائے کہ دین داری کے یہ دعوے دار سب سے زیادہ بے دین لوگ ہیں۔ وہ خدا کے پرستار نہیں ہیں بلکہ خود اپنی ذات کے پرستار ہیں۔ اللہ کی یہ سنت اگر چہ حق کے داعیوں کے لیے بڑا سخت امتحان ہے۔ مگر یہی وہ عمل ہے جس کے ذریعہ یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کون جنت کا مستحق ہے اور کون جہنم کا۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنا چاہتا ہے، اللہ کے حکم کا پابند بن کر رہنا اس کو گوارا نہیں ہوتا۔ حتی کہ دین خداوندی کی خود ساختہ تشریح کرکے وہ اس کو بھی اپنی خواہشوں کے سانچہ میں ڈھال لیتا ہے۔ ایسی حالت میں بے آمیز دین کو وہی لوگ قبول کریں گے جو چیزوں کو خواہش کی سطح پر نہ دیکھتے ہوں بلکہ اس سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے قائم کرتے ہوں۔ اللہ کی بات بلا شبہ صحیح ترین بات ہے۔ مگر موجودہ آزمائشی دنیا میں ہر سچائی پر ایک شبہہ کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ اس پردہ کو پھاڑ کر اس پر یقین کرے، وہ غیب کو شہود میں دیکھ لے۔ جو شخص ظاہری شبہات میں اٹک جائے وہ ناکام ہوگیا اور جو شخص ظاہری شبہات کے غبار کو پار کرکے سچائی کو پالے وہ کامیاب رہا۔