Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ فَإِنَّ حِزْبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلْغَٰلِبُونَ ﴾
“for, all who ally themselves with God and His Apostle and those who have attained to faith - behold, it is they, the partisans of God, who shall be victorious!”
ایمان لانے کے بعد جو شخص ایمان کے تقاضے پورے نہ کرے وہ اللہ کی نظر میں دین کو قبول کرنے کے بعد دین سے پھر گیا۔ اللہ کی نظر میں سچے ایمان والے لوگ وہ ہیں جن کے اندر ایمان اس طرح داخل ہو کہ ان کو محبت کی سطح پر اللہ سے تعلق پیدا ہوجائے، ان کو اسلامی مقاصد کی تکمیل اتنی عزیز ہو کہ جو لوگ اسلام کی راہ میں ان کے بھائی بنیں ان کے لیے ان کے دل میں نرمی اور ہمدردی کے سوا کوئی اور چیز باقی نہ رہے۔ وہ مسلمانوں کے لیے اس درجہ شفیق بن جائیں کہ ان کی طاقت اور ان کی صلاحیت کبھی مسلمانوں کے مقابلہ میں استعمال نہ ہو۔ وہ دین کے معاملہ میں اتنے پختہ ہوں کہ غیر اسلامی لوگوں کے افکار واعمال سے کوئی اثر قبول نہ کریں۔ ان کے جذبات اس درجہ اصول کے تابع ہوجائیں کہ حق كو قبول كرنےکے معاملے ميں وہ پھول سے زیادہ نازک ثابت ہوں مگر ناحق کے معامله ميں وہ پتھر سے زیادہ سخت بن جائیں۔ تاكه کوئی بھي ان کو اپنے بے جا مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ اسلامی زندگی ایک بامقصد زندگی ہے اور اسی لیے وہ جدوجہد کی زندگی ہے۔ مسلمان کامشن یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اللہ کے تمام بندوں تک پہنچائے۔جہنم کی طرف جاتی ہوئی دنیا کو جنت کے راستہ پر لانے کی کوشش کرے۔ اس کام ميںفطری طورپر آدمی كو طرح طرح کی مشكلات اور طرح طرح کي ملامت ومخالفت كاسامناهوتا هے۔ يهاں تك کہ دو الگ الگ گروہ بن جاتے ہیں۔ ایک دنیا پرستوں کا اور دوسرا آخرت کے مسافروں کا۔ ان کے درمیان ایک مستقل کش مکش شروع ہوجاتی ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ ان سارے مواقع پر وہ اس انسان کا ثبوت دے جو اللہ کے بھروسہ پر چل رہا ہے اور اللہ کے سوا کسی کی پروا کیے بغیر اپنا اسلامی سفر جاری رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کے دروازہ میں داخل ہو کر خدا کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح کے لوگ کسی مقام پر جب قابل لحاظ تعداد میں پیدا ہوجائیں تو زمین کا غلبہ بھی انھیں کے لیے مقدر کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں۔ یعنی ان کا مرکز توجہ تمام تر اللہ بن جاتا ہے۔ وہ زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ یعنی ان کے باہمی تعلقات ایک دوسرے کی خیر خواہی پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے آگے جھکنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی معاملات دنیا میں کوئی بھی چیز ان کو انانیت پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ وہ ہر موقع پر وہی کرتے ہیں جو اللہ چاہے۔ وہ تواضع اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، نہ کہ سرکشی کرنے والے۔