Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغْسِلُوا۟ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى ٱلْمَرَافِقِ وَٱمْسَحُوا۟ بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى ٱلْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًۭا فَٱطَّهَّرُوا۟ ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌۭ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوا۟ مَآءًۭ فَتَيَمَّمُوا۟ صَعِيدًۭا طَيِّبًۭا فَٱمْسَحُوا۟ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍۢ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾
“O YOU who have attained to faith! When you are about to pray, wash your face, and your hands and arms up to the elbows, and pass your [wet] hands lightly over your head, and [wash] your feet up to the ankles. And if you are in a state. requiring total ablution, purify yourselves. But if you are ill, or are travelling, or have just satisfied a want of nature, or have cohabited with a woman, and can find no water-then take resort to pure dust, passing therewith lightly over your face and your hands. God does not want to impose any hardship on you, but wants to make you pure, and to bestow upon you the full measure of His blessings, so that you might have cause to be grateful.”
نماز کا مقصدآدمی کو برائیوں سے پاک کرنا ہے۔ وضو اسی کی ایک خارجی تیاری ہے۔ آدمی جب نماز کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے وہ پانی کے پاس جاتا ہے۔ پانی بہت بڑی نعمت ہے جو آدمی کے لیے ہر قسم کی گندگی کو دھونے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسی طرح نماز بھی ایک ربانی چشمہ ہے جس میں نہا کر آدمی اپنے آپ کو برے جذبات اور گندے خیالات سے پاک کرتا ہے۔ آدمی وضو کو شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالتا ہے تو گویا عمل کی زبان میں یہ دعا کرتا ہے کہ خدایا میرے ان ہاتھوں کو برائی سے بچا اور ان کے ذریعہ جو برائیاں مجھ سے ہوئی ہیں ان کو دھو کر صاف کردے۔ پھر وہ اپنے منھ میں پانی ڈالتا ہے اور اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو اس کی روح زبان حال سے کہہ اٹھتی ہے کہ خدایا میں نے اپنے منھ میں جو غلط خوراک ڈالی ہو، میںنے اپنی زبان سے جو برا کلمہ نکالا ہو، میری آنکھوں نے جو بری چیز دیکھی ہو ان سب کو تو مجھ سے دور کردے۔ پھر وہ پانی لے کر اپنے ہاتھوں کو سر کے اوپر پھیرتا ہے تو اس کا وجو د سراپا اس دعا میں ڈھل جاتا ہے کہ خدایا میرے ذہن نے جو بری باتیں سوچی ہوں اور جو غلط منصوبے بنائے ہوں ان کے اثرات کو مجھ سے دھو دے اور میرے ذہن کو پاک صاف ذہن بنادے۔ پھر جب وہ اپنے پیروں کو دھوتا ہے تو اس کا عمل اس کے لیے اپنے رب کے سامنے یہ درخواست بن جاتا ہے کہ وہ اس کے پیروں سے برائی کی گرد کو دھودے اور اس کو ایسا بنا دے کہ سچائی اور انصاف کے راستے کے سوا کسی اور راستہ پر وہ کبھی نہ چلے۔ اس طرح پورا وضو آدمی کے لیے گویا اس دعا کی عملی صورت بن جاتا ہے— خدایا مجھے غلطی سے پلٹنے والا بنا اور مجھ کو برائیوں سے پاک رہنے والا بنا۔ عام حالات میں پاکی کا احساس پیدا کرنے کے لیے وضو کافی ہے۔ مگر جنابت کی حالت ایک غیرمعمولی حالت ہے۔ اس لیے اس میں پورے جسم کا دھونا (غسل) ضروری قرار دیاگیا۔ وضو اگر چھوٹا غسل ہے تو غسل بڑا وضو ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ وہ بندوں کو غیر ضروری مشقت میں ڈالے۔ اس لیے معذوری کی حالتوں میں پاکی کے احساس کو تازہ کرنے کے لیے تیمم کو کافی قرار دیا گیا۔ وضو اور غسل کے سادہ طریقے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ اس طرح طہارت شرعی کو طہارت طبعی کے ساتھ جوڑدیاگیا ہے۔ معذوری کی حالت میں تیمم کی اجازت مزید نعمت ہے کیوں کہ یہ غلو سے بچانے والی ہے جس میں اکثر مذاہب كے لوگ مبتلا ہوئے۔