slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 61 من سورة سُورَةُ المَائـِدَةِ

Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَإِذَا جَآءُوكُمْ قَالُوٓا۟ ءَامَنَّا وَقَد دَّخَلُوا۟ بِٱلْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا۟ بِهِۦ ۚ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا۟ يَكْتُمُونَ ﴾

“For, when they come unto you, they say, "We do believe": whereas, in fact, they come with the resolve to deny the truth, and depart in the same state. But God is fully aware of all that they would conceal.”

📝 التفسير:

مدینہ کے یہودیوں میں کچھ لوگ تھے جو اسلام سے ذہنی طور پر مرعوب تھے۔ نیز اسلام کا بڑھتا ہوا غلبہ دیکھ کر کھلم کھلا اس کا حریف بننا بھی نہیں چاہتے تھے۔ یہ لوگ اگر چہ اندر سے اپنے آبائی دین پر جمے ہوئے تھے مگر الفاظ بول کر ظاہر کرتے تھے کہ وہ بھی مومن ہیں۔ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ اصل معاملہ کسی انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اور خدا وہ ہے جو دلوں تک کا حال جانتا ہے۔ وہ کسی سے جو معاملہ کرے گا حقیقت کے اعتبار سے کرے گا، نہ کہ ان الفاظ کی بنا پر جو اس نے مصلحت کے طورپر اپنے منھ سے نکالا تھا۔ یہود کے خواص میں دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک ربّی جن کو مشائخ کہاجاسکتا ہے۔ دوسرے احبار جو اُن کے علماء اور فقہا کی مانند تھے۔ دونوں قسم کے لوگ اگر چہ دین ہی کو اپنا صبح وشام کا مشغلہ بنائے ہوئے تھے۔ دین کے نام پر ان کی قیادت قائم تھی۔ اور دین ہی کے نام پر ان کو بڑی بڑی رقمیں ملتی تھی۔ مگر ان کی قیادت ومقبولیت کا راز عوام پسند دین کی نمائندگی تھی، نہ کہ خدا پسند دین کی نمائندگی۔ ان کا بولنا اور ان کاچلنا بظاہر دین کے لیے تھا۔ مگر حقیقۃً وہ ایک قسم کی دنیاداری تھی جو دین کے نام پر جاری تھی۔ وہ دین کے نام پر لوگوں کو وہی چیز دے رہے تھے جس کو وہ دین کے بغیر اپنے لیے پسند كيے ہوئے تھے۔ خدا کا پسندیدہ دین تقویٰ کا دین ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی لوگوں کے درمیان اس طرح رہے کہ اس کی زبان گناہ کے کلمات نہ بولے، وہ اپنی سرگرمیوں میں حرام طریقوں سے پوری طرح بچتا ہو۔ جن لوگوں سے اس کا معاملہ پیش آئے ان کے ساتھ وہ انصاف کرنے والا ہو، نہ کہ ظلم کرنے والا۔ مگر آدمی کا نفس ہمیشہ اس کو دنیا پرستی کے راستہ پر ڈال دیتاہے۔ وہ ایسی زندگی گزارنا چاہتا ہے جس میں اس کو صحیح اور غلط نہ دیکھنا ہو بلکہ صرف اپنے فائدوں اور مصلحتوں کو دیکھنا ہو۔ یہود کے عوام اسی حالت پر تھے۔ اب ان کے خواص کا کام یہ تھا کہ وہ ان کو اس سے روکتے۔ مگر انھوںنے عوام سے ایک خاموش مفاہمت کرلی۔وہ عوام کے درمیان ایسا دین تقسیم کرنے لگے جس میں اپنی حقیقی زندگی کو بدلے بغیر نجات کی ضمانت ہو اور بڑے بڑے درجات طے ہوتے ہوں۔ یہ خواص اپنے عوام کی حقیقی زندگیوں کو نہ چھیڑتے البتہ ان کو ملت یہود کی فضیلت کے جھوٹے قصے سناتے۔ ان کے قومی ہنگاموں کو دین کے رنگ میں بیان کرتے۔ رسمی قسم کے اعمال دہرا دینے پر یہ بشارت دیتے کہ ان کے ذریعہ سے ان کے لیے جنت کے محل تعمیر ہورہے ہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بہت برا کام ہے کہ لوگوں کے درمیان ایسا دین تقسیم کیا جائے جس میں حقیقی عملی زندگی کو بدلنا نہ ہو، البتہ کچھ نمائشی چیزوں کا اہتمام کرکے جنت کی ضمانت مل جائے۔