Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ يَدُ ٱللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا۟ بِمَا قَالُوا۟ ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَآءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًۭا مِّنْهُم مَّآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَٰنًۭا وَكُفْرًۭا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَٰوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ كُلَّمَآ أَوْقَدُوا۟ نَارًۭا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا ٱللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًۭا ۚ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلْمُفْسِدِينَ ﴾
“And the Jews say, "God's hand is shackled!" It is their own hands that are shackled; and rejected [by God] are they because of this their assertion. Nay, but wide are His hands stretched out: He dispenses [bounty] as He wills. But all that has been bestowed from on high upon thee [O Prophet] by thy Sustainer is bound to make many of them yet more stubborn in their overweening arrogance and in their denial of the truth. And so We have cast enmity and hatred among the followers of the Bible, [to last] until Resurrection Day; every time they light the fires of war, God extinguishes them; and they labour hard to spread corruption on earth: and God does not -love the spreaders of corruption.”
قرآن میں جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر زور دیاگیا اور کہاگیا کہ اللہ کو قرض حسن دو تو یہود نے اس کومذاق کا موضوع بنالیا۔ وہ کہتے کہ اللہ فقیر ہے اور اس کے بندے امیر ہیں۔ اللہ کے ہاتھ آج کل تنگ ہورہے ہیں۔ ان کی اس قسم کی باتوں کا رخ خدا کی طرف نہیں بلکہ رسول اور قرآن کی طرف ہوتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ خدا اس سے برتر ہے کہ اس کے یہاں کسی چیز کی کمی ہو۔ اس طرح کی باتیں وہ دراصل یہ ظاہر کرنے کے لیے کہتے تھے کہ يه رسول سچا رسول نہیں۔ اور قرآن خدا کی کتاب نہیں۔ اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہوتا تو (نعوذ باللہ) ایسی مضحکہ خیز باتیں اس میں نہ ہوتیں۔ مگر جو لوگ اس قسم کی باتیں کریں وہ صرف یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ حقیقی دینی جذبہ سے خالی ہیں، وہ بے حسی کی سطح پر جی رہے ہیں۔ موجودہ امتحانی دنیا میں انسان کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں ایک شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ’’قرآن خدا کی کتاب ہے‘‘۔ اور اگر کوئی شخص یہ کہنا چاہے کہ ’’قرآن ایک بناوٹی کتاب ہے‘‘ تو اس کو بھی اپنی بات کہنے کے لیے الفاظ مل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آدمی ایک واقعہ سے ہدایت پکڑ سکتا ہے اور اسی واقعہ سے دوسرا آدمی سرکشی کی غذا بھي لے سکتا ہے۔ یہود نے جب قرآن کی ہدایت کو ماننے سے انکار کیا تو وہ سادہ معنوں میں محض انکار نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے ان کا یہ زعم شامل تھا کہ ہم تو نجات یافتہ لوگ ہیں، ہمیں کسی او ر ہدایت کو ماننے کی کیا ضرورت۔ جو لوگ اس قسم کی پُرفخر نفسیات میں مبتلا ہوں ان کے اندر شدید ترین قسم کی اَنانیت جنم لیتی ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں جب ان کا معاملہ دوسروں سے پڑتا ہے تو وہاں بھی وہ اپنی ’’میں‘‘ کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ آپس کے اختلاف اور عناد کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ پیغمبر کی دعوت یہ ہوتی ہے کہ انسان بھی اسی اطاعت خداوندی کے دین کو اپنا لے جس کو کائنات کی تمام چیزیں اپنائے ہوئے ہیں۔ یہی زمین کی اصلاح ہے۔ اب جو لوگ پیغمبرانہ دعوت کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں وہ خدا کی زمین میں فساد پیدا کرنے کا کام کررہے ہیں۔ تاہم انسان کو بس اتنی ہی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے اندر کے فساد کو باہر لائے، دوسروں کی قسمت کا مالک بننے کی آزادی کسی کو نہیں۔