Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا۟ ٱلتَّوْرَىٰةَ وَٱلْإِنجِيلَ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا۟ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌۭ مُّقْتَصِدَةٌۭ ۖ وَكَثِيرٌۭ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا يَعْمَلُونَ ﴾
“and if they would but truly observe the Torah and the Gospel and all [the revelation] that has been bestowed from on high upon them by their Sustainer, they would indeed partake of all the blessings of heaven and earth. Some of them do pursue a right course; but as for most of them -vile indeed is what they do!”
تمام گمراہیوں کا اصل سبب آدمی کا ڈھیٹ ہوجانا ہے۔ اگر آدمی اللہ سے ڈرے تو اس کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگ سکتی کہ کون سی بات خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات ہے۔ ڈر کی نفسیات اس کے اندر سے دوسرے تمام محرکات کو حذف کردے گی اور آدمی خدا کی بات کو فوراً پہچان کر اس کو مان لے گا۔ جب آدمی اس حد تک اپنے آپ کو خدا کی طرف متوجہ کردے تو اس کے بعد وہ بھی خدا کی توجہ کا مستحق ہوجاتا ہے۔ خدا اس کی بشری کمزوریوں کو اس سے دھودیتا ہے اور مرنے کے بعد اس کو جنت کے نعمت بھرے باغوں میں جگہ دیتا ہے۔ آدمی کی برائیاں، بالفاظ دیگر اس کی نفسیاتی کمزوریاں، وہ چیزيں ہیں جو اس کو جنت کے راستہ پر بڑھنے نہیں دیتیں۔ خدا کی توفیق سے جو شخص اپنی نفسیاتی کمزوریوں پر قابو پالیتاہے وہی جنت کی منزل تک پہنچتا ہے۔ جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس سے متوحش ہوجاتے ہیں جو سابقه نظام كے تحت سرداري كا مقام حاصل كيے هوئے هوں۔ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اس کو قبول کرتے ہی ان کے معاشی مفادات اور ان کی قائدانہ عظمتیں ختم ہوجائیں گی۔ مگر یہ صرف تنگ نظری ہے۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ جس چیز کو وہ توحش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں وہ صرف ان کی اہلیت کو جانچنے کے لیے ظاہر ہوئی ہے۔ آئندہ وہ خدا کے انعامات کے مستحق ہوں یا نہ ہوں اس کا فیصلہ ان کی اپنی تحفظاتی تدبیروں پر نہیں ہوگا بلکہ اس پر ہوگا کہ دعوت حق کے ساتھ وہ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ گویا دعوت حق کے انکار کے ذریعہ وہ اپنی جس بڑائی کو بچانا چاہتے ہیں وہی انکار وہ چیز ہے جو خدا کے نزدیک ان کے استحقاق کو ختم کررہا ہے۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اصل خدائی تعلیمات میں افراط یا تفریط (بڑھا کر یا گھٹا کر)کرکے وہ ایک خود ساختہ دین بنا لیتے ہیں اور لمبی مدت گزرنے کے بعد اس کے افراد اس سے اس قدر مانوس ہو جاتے ہیں کہ اسی کو اصل خدائی مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسی حالت میں جب خدا کا سیدھا اور سچا دین ان کے سامنے آتاہے تو وہ اس کو اپنے لیے غیر مانوس پاکر متوحش ہوتے ہیں۔ یہود ونصاریٰ کا یہی حال تھا۔ چنانچہ ان کی بہت بڑی اکثریت اسلام کی صداقت کو پانے سے قاصر رہی۔ صرف چند لوگ (مثلاً نجاشی شاہ حبش، عبد اللہ بن سلام، وغیرہ) جو اعتدال کی راہ پر باقی تھے، انھیں اسلام کی صداقت کو سمجھنے میں دیر نہیںلگی۔ انھوں نے بڑھ کر اسلام کو اس طرح اپنا لیا جیسے وہ پہلے سے اسی راستہ پر چل رہے ہوں اور اپنے سفر کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوگئے ہوں۔