slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 67 من سورة سُورَةُ المَائـِدَةِ

Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُۥ ۚ وَٱللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴾

“O APOSTLE! Announce all that has been bestowed from on high upon thee by thy Sustainer: for unless thou doest it fully, thou wilt not have delivered His message [at all]. And God will protect thee from [unbelieving] men: behold, God does not guide people who refuse to acknowledge the truth.”

📝 التفسير:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب عرب میں آئے تو ایسا نہ تھا کہ وہاں دین کا نام لینے والا کوئی نہ ہو۔ بلکہ ان کا سارا معاشرہ دین ہی کے نام پر قائم تھا۔ دین کے نام پر بہت سے لوگ پیشوائی اور قیادت کا مقام حاصل کیے ہوئے تھے۔ دین کے نام پر لوگوں کو بڑی بڑی رقمیں ملتی تھیں۔ دینی مناصب کا حامل ہونا معاشرہ میں عزت اور فخر کی علامت بنا ہوا تھا۔ اس کے باوجود آپ کو عرب کے لوگوں کی طرف سے سخت ترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دین خداوندی کے نام پر ان کے یہاں ایک خود ساختہ دین رائج ہوگیا تھا۔ صدیوں کی روایات کے نتیجہ میں اس دین کے نام پر گدّیاں بن گئی تھیں اور مفادات کی بہت سی صورتیں قائم ہوگئی تھیں۔ ایسے ماحول میں جب پیغمبر اسلام نے بے آمیز دین کی دعوت پیش کی تو لوگوںکو نظر آیا کہ وہ ان کی دینی حیثیت کو بے اعتبار ثابت کررہی ہے۔ ان کو اندیشہ ہوا کہ اگر یہ دین پھیلا تو ان کا وہ مذہبی ڈھانچہ ڈھ جائے گا جس میں ان کو بڑائی کا مقام ملا ہوا ہے۔ یہ صورت حال داعی کے لیے بہت سخت ہوتی ہے۔ اپنے دعوتی کام کو کھلے طورپر انجام دینا وقت کی مذہبی طاقتوں سے لڑنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اس کو دکھائی دیتا ہے کہ اگر میں کسی مصالحت کے بغیر سچے دین کی تبلیغ کروں تو مجھ کو سخت ترین رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا مذاق اڑایا جائے گا۔ مجھ کو بے عزت کیا جائے گا۔ میری معاشیات تباہ کی جائیں گی۔ میرے خلاف جارحانہ کارروائیاں ہوں گی۔ میں اعوان وانصار سے محروم ہوجاؤں گا۔ اب اس کے سامنے دور راستے ہوتے ہیں۔ دعوتی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں دنیوی مصلحتوں کے سِرے ہاتھ سے چھوٹتے ہیں۔ اور اگر دنیوی مصلحتوں کا لحاظ کیا جائے تو دعوتی عمل کی پوری انجام دہی ناممکن نظر آتی ہے۔ یہاں خدا کا وعدہ داعی کو یکسو کرتاہے۔ خدا کا وعدہ ہے کہ داعی اگر اپنے آپ کو خدا کے پیغام کی پیغام رسانی میں لگا دے تو لوگوں کی طرف سے ڈالی جانے والی مشکلات میں خدا اس کے لیے کافی ہوجائے گا۔ داعی کو چاہیے کہ وہ صرف دعوت کے تقاضوں کی تکمیل میں لگ جائے اور مدعو قوم کی طرف سے ڈالے جانے والے مصائب میں وہ خدا پر بھروسہ کرے۔ مخاطبین کا رد عمل ایک فطری چیز ہے اور داعی کو بہر حال اس سے سابقہ پیش آتا ہے۔ مگر اس کا اثر اسی دائرہ تک محدود رہتا ہے جتنا خدا کے قانونِ آزمائش کا تقاضا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ مخالفین اس حد تک قابو یافتہ ہوجائیں کہ وہ دعوتی مہم کو روک دیں یا اس کو تکمیل تک پہنچنے نہ دیں۔ ایک سچی دعوت کا اپنے دعوتی نشانہ تک پہنچنا ایک خدائی منصوبہ ہوتا ہے اس لیے وہ لازماً پورا ہو کر رہتاہے۔ اس کے بعد مدعو گروہ کا ماننا اس کی اپنی ذمہ داری ہے جو اسی کے بقدر نتیجہ خیز ہوتی ہے جتنا مدعو خود چاہتاہو۔