slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 82 من سورة سُورَةُ المَائـِدَةِ

Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ۞ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ ٱلنَّاسِ عَدَٰوَةًۭ لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱلْيَهُودَ وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُوا۟ ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةًۭ لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّا نَصَٰرَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًۭا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴾

“Thou wilt surely find that, of all people, the most hostile to those who believe [in this divine writ] are the Jews as well as those who are bent on ascribing divinity to aught beside God; and thou wilt surely find that, of all people, they who say, "Behold, we are Christians," come closest to feeling affection for those who believe [in this divine writ]: this is so because there are priests and monks among them, and because these are not given to arrogance.”

📝 التفسير:

اس آیت میں جنت کو ’’قول‘‘ کا بدلہ قرار دیاگیا۔ مگر وہ قول کیا تھا جس نے اس کے قائلین کو ابدی جنت کا مستحق بنایا۔ وہ قول ان كي پوری ہستی کا نمائندہ تھا۔ وہ ان کی شخصیت کی پھٹن کی آواز تھا۔ انھوں نے اللہ کے کلام کو اس طرح سنا کہ اس کے اندر جو حق تھا اس کو وہ پوری طرح پاگئے۔ وہ ان کے دل و دماغ میں اتر گیا۔ اس نے ان کے اندر ایسا انقلاب برپا کیا کہ ان کے حوصلوں اور تمناؤں کا مرکز بدل گیا۔ تعصب اور مصلحت کی تمام دیواریں ڈھ پڑیں۔ انھوں نے حق کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح شامل کیا کہ اس سے الگ ان كي کو ئی ہستی باقی نہ رہی۔ وہ اس کے گواہ بن گئے، اور گواہ بننا ایک حقیقت کا انسان کی صورت میں مجسم ہونا ہے۔ قرآن اب ان کے لیے محض ایک کتاب نہ رہا بلکہ مالک کائنات کی زنده نشانی بن گیا۔ یہ ربانی تجربہ جو ان پر گزرا بظاہر اس کا اظہار اگر چہ لفظوں کی صورت میں ہوا تھا مگر ان کے یہ الفاظ نہ تھے بلکہ وہ ایک زلزلہ تھا جس نے ان کے پورے وجود کو ہلا دیا۔ حتی کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ پڑیں۔ قول اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی قسم کے لسانی تلفظ کا نام نہیں۔ وہ آدمی کے عمل کو معنویت کا روپ دینے کی اعلیٰ ترین صورت ہے جس کا اختیار معلوم کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔ ایک حقیقی قول سب سے زیادہ لطیف اور سب سے زیادہ با معنی واقعه ہے۔ قول آدمی کی ہستی کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ قول ناطقِ عمل ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص قول کی سطح پر اپنی عبدیت کا ثبوت دے دے تو وہ جنت کا یقینی استحقاق حاصل کرلیتا ہے۔ حق کو نہ ماننے کی سب سے بڑی وجہ ہمیشہ کبر ہوتاہے۔ جن کے دلوں میں کبر چھپا ہوا ہو وہ حق کی دعوت کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے اندر کبر نہ ہو، خواہ وہ دوسری کسی گمراہی میں مبتلا ہوں، وہ حق کی مخالفت میں کبھی اتنا آگے نہیں جاسکتے کہ اس کے جانی دشمن بن جائیں۔ اور کسی حال میں اس کو قبول نہ کریں۔