slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 96 من سورة سُورَةُ المَائـِدَةِ

Al-Maaida • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ ٱلْبَحْرِ وَطَعَامُهُۥ مَتَٰعًۭا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ ٱلْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًۭا ۗ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴾

“Lawful to you is all water-game, and what the sea brings forth, as a provision for you [who are settled] as well as for travellers, although you are forbidden to hunt on land while you are in the state of pilgrimage. And be conscious of God, unto whom you shall be gathered.”

📝 التفسير:

حالتِ احرام میں شکار حرام ہے مگر جو لوگ دریا یا سمندر سے بیت اللہ کا سفر کررہے ہوں ان کے لیے جائز ہے کہ وہ پاني میں شکار کریں اور اس کو کھائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شکار کی یہ ممانعت اس کے اندر کسی ذاتی حرمت کی بنا پر نہ تھی، بلکہ محض ’’آزمائش‘‘ کے لیے تھی۔ انسان کو آزمانے کے لیے اللہ نے علامتی طورپر کچھ چیزیں مقرر کردیں۔ اس لیے جہاں شارع نے محسوس کیا کہ جو چیز آزمائش کے لیے تھی وہ بندوں کے لیے غیرضروری مشقت کا سبب بن جائے گی وہاں قانون میں نرمی کردی گئی۔ کیوں کہ سمندر کے سفر میں اگر زادِ راہ نہ رہے تو آدمی کے لیے اپنی زندگی کو باقی رکھنے کی اس کے سوا اور صورت نہیں رہتی کہ وہ آبی جانوروں کو اپنی خوراک بنائے۔ کعبہ اسلام اور ملّت اسلام کا دائمی مرکز ہے۔ کعبہ کی طرف رخ کرنے کو نماز کی شر ط ٹھہرا کر اللہ نے دنیا کے ایک ایک مسلمان کو کعبہ کی مرکزیت کے ساتھ جوڑ دیا۔ پھر حج کی صورت میں اس کو اسلام کا بین اقوامی اجتماع گاہ بنا دیا۔ زیارتِ کعبہ کے ذیل میں جو شعائر مقرر كيے گئے ہیں ان کے احترام کی وجہ ان کا کوئی ذاتی تقدس نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آدمی کے امتحان کی علامت ہیں۔ بندہ جب ان شعائر کے بارے میں اللہ کے حکم کو پورا کرتاہے تو وہ اپنے ذہن میں اس حقیقت کو تازہ کرتاہے کہ اللہ اگر چہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر وہ زندہ موجود ہے۔ وہ حکم دیتاہے ، وہ بندوں کی نگرانی کرتا ہے، وہ ہماری تمام حرکتوں سے باخبر ہے۔ یہ احساسات آدمی کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرتے ہیں اور اس کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ زندگی کے مختلف مواقع پر اللہ کا سچا بندہ بن کر رہ سکے۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جس طرف بھیڑ ہو، جدھر ظاہری سازوسامان کی کثرت ہو اسی کو اہم سمجھ لیتا ہے۔ مگر خدا کے نزدیک ساری اہمیت صرف کیفیت کی ہے۔ مقداركي اس کے یہاں کوئی قیمت نہیں۔ جو لوگ ’’کثرت‘‘ کی طرف دوڑیں اور ’’قلت‘‘ کو نظر انداز کردیں، وہ اپنے خیال سے بڑی ہوشیاری کررہے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ انتہائی نادان ہیں۔ کامیاب وہ ہے جو خدا کے ڈر کے تحت اپنا رویہ متعین کرے، نہ کہ مادی مصالح یا دنیوی اندیشوں کے تحت۔