At-Tur • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌۭ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم بِسُلْطَٰنٍۢ مُّبِينٍ ﴾
“Or have they a ladder by which they could [ascend to ultimate truths and] listen [to what is beyond the reach of human perception]? Let, then, any of them who have listened [to it] produce a manifest proof [of his knowledge]!”
خدا کی طرف سے جن صداقتوں کا اعلان ہوا ہے وہ سب پوری طرح معقول ہیں۔ آدمی اگر دھیان دے تو وہ بہ آسانی ان کو سمجھ سکتا ہے۔ پھر بھی لوگ کیوں ان کا انکار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ آخرت کے بارے میں لوگوں کی بے یقینی ہے۔ لوگوں کو زندہ یقین نہیں کہ آخرت میں ان سے حساب لیا جائے گا۔ اس لیے وہ ان امور میں سنجیدہ نہیں۔ اور اسی لیے وہ ان کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اگر جزائے اعمال کا یقین ہو تو آدمی فوراً ان باتوں کو سمجھ جائے جن کو سمجھنا اس کے لیے نہایت مشکل ہورہا ہے۔