🕋 تفسير سورة الواقعة
(Al-Waqia) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ
📘 موجودہ دنیا میں آدمی دیکھتا ہے کہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس لیے آخرت کی پکڑ کی بات اس کے ذہن میں نہیں بیٹھتی۔ مگر اگلی دنیا کا بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا موجودہ دنیا کا بننا۔ جب وہ وقت آئے گا تو سارا نظام تلپٹ هوجائے گا۔ اوپر کے لوگ نیچے ہوجائیں گے۔ اور نیچے کے لوگ اوپر دکھائی دیں گے۔ اس وقت انسان اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے السابقون، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال۔
وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
عَلَىٰ سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
لَا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُونَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ
📘 موجودہ دنیا میں آدمی دیکھتا ہے کہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس لیے آخرت کی پکڑ کی بات اس کے ذہن میں نہیں بیٹھتی۔ مگر اگلی دنیا کا بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا موجودہ دنیا کا بننا۔ جب وہ وقت آئے گا تو سارا نظام تلپٹ هوجائے گا۔ اوپر کے لوگ نیچے ہوجائیں گے۔ اور نیچے کے لوگ اوپر دکھائی دیں گے۔ اس وقت انسان اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے السابقون، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال۔
وَفَاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَلَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَحُورٌ عِينٌ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
خَافِضَةٌ رَافِعَةٌ
📘 موجودہ دنیا میں آدمی دیکھتا ہے کہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس لیے آخرت کی پکڑ کی بات اس کے ذہن میں نہیں بیٹھتی۔ مگر اگلی دنیا کا بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا موجودہ دنیا کا بننا۔ جب وہ وقت آئے گا تو سارا نظام تلپٹ هوجائے گا۔ اوپر کے لوگ نیچے ہوجائیں گے۔ اور نیچے کے لوگ اوپر دکھائی دیں گے۔ اس وقت انسان اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے السابقون، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال۔
وَظِلٍّ مَمْدُودٍ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
لَا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
عُرُبًا أَتْرَابًا
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
لِأَصْحَابِ الْيَمِينِ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا
📘 موجودہ دنیا میں آدمی دیکھتا ہے کہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس لیے آخرت کی پکڑ کی بات اس کے ذہن میں نہیں بیٹھتی۔ مگر اگلی دنیا کا بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا موجودہ دنیا کا بننا۔ جب وہ وقت آئے گا تو سارا نظام تلپٹ هوجائے گا۔ اوپر کے لوگ نیچے ہوجائیں گے۔ اور نیچے کے لوگ اوپر دکھائی دیں گے۔ اس وقت انسان اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے السابقون، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال۔
وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
لَا بَارِدٍ وَلَا كَرِيمٍ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُتْرَفِينَ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
وَكَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
وَكَانُوا يَقُولُونَ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا
📘 موجودہ دنیا میں آدمی دیکھتا ہے کہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس لیے آخرت کی پکڑ کی بات اس کے ذہن میں نہیں بیٹھتی۔ مگر اگلی دنیا کا بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا موجودہ دنیا کا بننا۔ جب وہ وقت آئے گا تو سارا نظام تلپٹ هوجائے گا۔ اوپر کے لوگ نیچے ہوجائیں گے۔ اور نیچے کے لوگ اوپر دکھائی دیں گے۔ اس وقت انسان اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے السابقون، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال۔
لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
هَٰذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ
📘 اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دنیا میں انہیں جو چیزیں ملی تھیں انہوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا۔ وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہے۔ جو اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ وہ آخرت کو اس طرح بھولے رہے گویا کہ وہ آنے والی ہی نہیں۔ ایسے لوگ فیصلہ کے دن سخت عذاب کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا
📘 موجودہ دنیا میں آدمی دیکھتا ہے کہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس لیے آخرت کی پکڑ کی بات اس کے ذہن میں نہیں بیٹھتی۔ مگر اگلی دنیا کا بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا موجودہ دنیا کا بننا۔ جب وہ وقت آئے گا تو سارا نظام تلپٹ هوجائے گا۔ اوپر کے لوگ نیچے ہوجائیں گے۔ اور نیچے کے لوگ اوپر دکھائی دیں گے۔ اس وقت انسان اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے السابقون، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال۔
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
عَلَىٰ أَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَىٰ فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
إِنَّا لَمُغْرَمُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
وَكُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً
📘 موجودہ دنیا میں آدمی دیکھتا ہے کہ اس کو آزادی حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس لیے آخرت کی پکڑ کی بات اس کے ذہن میں نہیں بیٹھتی۔ مگر اگلی دنیا کا بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا موجودہ دنیا کا بننا۔ جب وہ وقت آئے گا تو سارا نظام تلپٹ هوجائے گا۔ اوپر کے لوگ نیچے ہوجائیں گے۔ اور نیچے کے لوگ اوپر دکھائی دیں گے۔ اس وقت انسان اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے السابقون، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال۔
لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِلْمُقْوِينَ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ
📘 ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً
98
فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔
۞ فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ
📘 مواقع کا لفظ موقع کی جمع ہے اس کے معنی ہیں گرنے کی جگہ ۔ چنانچہ بارش ہونے کی جگہ کو مواقع القطر کہا جاتا ہے۔یہاں ستاروں کے مواقع سے مراد غالباً ستاروں کے مدار ( Orbits) ہیں۔ کائنات میں بےشمار نہایت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ وہ حددرجہ صحت کے ساتھ اپنے اپنے مدار پر گھوم رہے ہیں۔
یہ واقعہ دہشت ناک حد تک عظیم ہے ۔ جو شخص اس خلائی نظام پر غور کرے گا وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ اس کائنات کا خالق نا قابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ پھر ایسے خالق کی طرف سے جو کتاب آئے وہ بھی یقیناً عظیم ہوگی۔اور قرآن بلا شبہ ایسی ہی ایک عظیم کتا ب ہے۔
قرآن جس طرح لوح محفوظ میں تھا ، ٹھیک اسی طرح وہ فرشتوں کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچا ۔ اور آج تک وہ اسی طرح محفوظ ہے۔ قدیم زمانہ کی کوئی بھی دوسری کتاب نہیں جو اس طرح کامل طور پر محفوظ ہو۔ یہ واقعہ خود اس کتاب کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ایسی ایک کتاب سے جو شخص ہدایت حاصل نہ کرے اس کی محرومی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ
📘 مواقع کا لفظ موقع کی جمع ہے اس کے معنی ہیں گرنے کی جگہ ۔ چنانچہ بارش ہونے کی جگہ کو مواقع القطر کہا جاتا ہے۔یہاں ستاروں کے مواقع سے مراد غالباً ستاروں کے مدار ( Orbits) ہیں۔ کائنات میں بےشمار نہایت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ وہ حددرجہ صحت کے ساتھ اپنے اپنے مدار پر گھوم رہے ہیں۔
یہ واقعہ دہشت ناک حد تک عظیم ہے ۔ جو شخص اس خلائی نظام پر غور کرے گا وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ اس کائنات کا خالق نا قابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ پھر ایسے خالق کی طرف سے جو کتاب آئے وہ بھی یقیناً عظیم ہوگی۔اور قرآن بلا شبہ ایسی ہی ایک عظیم کتا ب ہے۔
قرآن جس طرح لوح محفوظ میں تھا ، ٹھیک اسی طرح وہ فرشتوں کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچا ۔ اور آج تک وہ اسی طرح محفوظ ہے۔ قدیم زمانہ کی کوئی بھی دوسری کتاب نہیں جو اس طرح کامل طور پر محفوظ ہو۔ یہ واقعہ خود اس کتاب کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ایسی ایک کتاب سے جو شخص ہدایت حاصل نہ کرے اس کی محرومی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ
📘 مواقع کا لفظ موقع کی جمع ہے اس کے معنی ہیں گرنے کی جگہ ۔ چنانچہ بارش ہونے کی جگہ کو مواقع القطر کہا جاتا ہے۔یہاں ستاروں کے مواقع سے مراد غالباً ستاروں کے مدار ( Orbits) ہیں۔ کائنات میں بےشمار نہایت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ وہ حددرجہ صحت کے ساتھ اپنے اپنے مدار پر گھوم رہے ہیں۔
یہ واقعہ دہشت ناک حد تک عظیم ہے ۔ جو شخص اس خلائی نظام پر غور کرے گا وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ اس کائنات کا خالق نا قابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ پھر ایسے خالق کی طرف سے جو کتاب آئے وہ بھی یقیناً عظیم ہوگی۔اور قرآن بلا شبہ ایسی ہی ایک عظیم کتا ب ہے۔
قرآن جس طرح لوح محفوظ میں تھا ، ٹھیک اسی طرح وہ فرشتوں کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچا ۔ اور آج تک وہ اسی طرح محفوظ ہے۔ قدیم زمانہ کی کوئی بھی دوسری کتاب نہیں جو اس طرح کامل طور پر محفوظ ہو۔ یہ واقعہ خود اس کتاب کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ایسی ایک کتاب سے جو شخص ہدایت حاصل نہ کرے اس کی محرومی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ
📘 مواقع کا لفظ موقع کی جمع ہے اس کے معنی ہیں گرنے کی جگہ ۔ چنانچہ بارش ہونے کی جگہ کو مواقع القطر کہا جاتا ہے۔یہاں ستاروں کے مواقع سے مراد غالباً ستاروں کے مدار ( Orbits) ہیں۔ کائنات میں بےشمار نہایت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ وہ حددرجہ صحت کے ساتھ اپنے اپنے مدار پر گھوم رہے ہیں۔
یہ واقعہ دہشت ناک حد تک عظیم ہے ۔ جو شخص اس خلائی نظام پر غور کرے گا وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ اس کائنات کا خالق نا قابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ پھر ایسے خالق کی طرف سے جو کتاب آئے وہ بھی یقیناً عظیم ہوگی۔اور قرآن بلا شبہ ایسی ہی ایک عظیم کتا ب ہے۔
قرآن جس طرح لوح محفوظ میں تھا ، ٹھیک اسی طرح وہ فرشتوں کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچا ۔ اور آج تک وہ اسی طرح محفوظ ہے۔ قدیم زمانہ کی کوئی بھی دوسری کتاب نہیں جو اس طرح کامل طور پر محفوظ ہو۔ یہ واقعہ خود اس کتاب کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ایسی ایک کتاب سے جو شخص ہدایت حاصل نہ کرے اس کی محرومی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
📘 مواقع کا لفظ موقع کی جمع ہے اس کے معنی ہیں گرنے کی جگہ ۔ چنانچہ بارش ہونے کی جگہ کو مواقع القطر کہا جاتا ہے۔یہاں ستاروں کے مواقع سے مراد غالباً ستاروں کے مدار ( Orbits) ہیں۔ کائنات میں بےشمار نہایت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ وہ حددرجہ صحت کے ساتھ اپنے اپنے مدار پر گھوم رہے ہیں۔
یہ واقعہ دہشت ناک حد تک عظیم ہے ۔ جو شخص اس خلائی نظام پر غور کرے گا وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ اس کائنات کا خالق نا قابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ پھر ایسے خالق کی طرف سے جو کتاب آئے وہ بھی یقیناً عظیم ہوگی۔اور قرآن بلا شبہ ایسی ہی ایک عظیم کتا ب ہے۔
قرآن جس طرح لوح محفوظ میں تھا ، ٹھیک اسی طرح وہ فرشتوں کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچا ۔ اور آج تک وہ اسی طرح محفوظ ہے۔ قدیم زمانہ کی کوئی بھی دوسری کتاب نہیں جو اس طرح کامل طور پر محفوظ ہو۔ یہ واقعہ خود اس کتاب کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ایسی ایک کتاب سے جو شخص ہدایت حاصل نہ کرے اس کی محرومی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 مواقع کا لفظ موقع کی جمع ہے اس کے معنی ہیں گرنے کی جگہ ۔ چنانچہ بارش ہونے کی جگہ کو مواقع القطر کہا جاتا ہے۔یہاں ستاروں کے مواقع سے مراد غالباً ستاروں کے مدار ( Orbits) ہیں۔ کائنات میں بےشمار نہایت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ وہ حددرجہ صحت کے ساتھ اپنے اپنے مدار پر گھوم رہے ہیں۔
یہ واقعہ دہشت ناک حد تک عظیم ہے ۔ جو شخص اس خلائی نظام پر غور کرے گا وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ اس کائنات کا خالق نا قابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ پھر ایسے خالق کی طرف سے جو کتاب آئے وہ بھی یقیناً عظیم ہوگی۔اور قرآن بلا شبہ ایسی ہی ایک عظیم کتا ب ہے۔
قرآن جس طرح لوح محفوظ میں تھا ، ٹھیک اسی طرح وہ فرشتوں کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچا ۔ اور آج تک وہ اسی طرح محفوظ ہے۔ قدیم زمانہ کی کوئی بھی دوسری کتاب نہیں جو اس طرح کامل طور پر محفوظ ہو۔ یہ واقعہ خود اس کتاب کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ایسی ایک کتاب سے جو شخص ہدایت حاصل نہ کرے اس کی محرومی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
أَفَبِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ
📘 مواقع کا لفظ موقع کی جمع ہے اس کے معنی ہیں گرنے کی جگہ ۔ چنانچہ بارش ہونے کی جگہ کو مواقع القطر کہا جاتا ہے۔یہاں ستاروں کے مواقع سے مراد غالباً ستاروں کے مدار ( Orbits) ہیں۔ کائنات میں بےشمار نہایت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ وہ حددرجہ صحت کے ساتھ اپنے اپنے مدار پر گھوم رہے ہیں۔
یہ واقعہ دہشت ناک حد تک عظیم ہے ۔ جو شخص اس خلائی نظام پر غور کرے گا وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ اس کائنات کا خالق نا قابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ پھر ایسے خالق کی طرف سے جو کتاب آئے وہ بھی یقیناً عظیم ہوگی۔اور قرآن بلا شبہ ایسی ہی ایک عظیم کتا ب ہے۔
قرآن جس طرح لوح محفوظ میں تھا ، ٹھیک اسی طرح وہ فرشتوں کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچا ۔ اور آج تک وہ اسی طرح محفوظ ہے۔ قدیم زمانہ کی کوئی بھی دوسری کتاب نہیں جو اس طرح کامل طور پر محفوظ ہو۔ یہ واقعہ خود اس کتاب کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ایسی ایک کتاب سے جو شخص ہدایت حاصل نہ کرے اس کی محرومی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ
📘 مواقع کا لفظ موقع کی جمع ہے اس کے معنی ہیں گرنے کی جگہ ۔ چنانچہ بارش ہونے کی جگہ کو مواقع القطر کہا جاتا ہے۔یہاں ستاروں کے مواقع سے مراد غالباً ستاروں کے مدار ( Orbits) ہیں۔ کائنات میں بےشمار نہایت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ وہ حددرجہ صحت کے ساتھ اپنے اپنے مدار پر گھوم رہے ہیں۔
یہ واقعہ دہشت ناک حد تک عظیم ہے ۔ جو شخص اس خلائی نظام پر غور کرے گا وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ اس کائنات کا خالق نا قابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ پھر ایسے خالق کی طرف سے جو کتاب آئے وہ بھی یقیناً عظیم ہوگی۔اور قرآن بلا شبہ ایسی ہی ایک عظیم کتا ب ہے۔
قرآن جس طرح لوح محفوظ میں تھا ، ٹھیک اسی طرح وہ فرشتوں کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچا ۔ اور آج تک وہ اسی طرح محفوظ ہے۔ قدیم زمانہ کی کوئی بھی دوسری کتاب نہیں جو اس طرح کامل طور پر محفوظ ہو۔ یہ واقعہ خود اس کتاب کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ایسی ایک کتاب سے جو شخص ہدایت حاصل نہ کرے اس کی محرومی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَٰكِنْ لَا تُبْصِرُونَ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ
📘 اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) سے مراد عام اہل جنت ہیں۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے صالح تھے۔ ان کو ایمانی اعتبار سے اگرچہ اعلی شعوری درجہ حاصل نہ تھا تاہم وہ خدا ورسول کے لیے مخلص تھے اور اپنی زندگی میں انصاف اور خدا ترسی کے راستہ پر قائم رہے۔ اس گروہ میں دور اول کے بھی کافی لوگ ہوں گے اور دور ثانی کے بھی کافی لوگ۔
وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
فَسَلَامٌ لَكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
فَنُزُلٌ مِنْ حَمِيمٍ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ
📘 موت کا واقعہ اس بات کا آخری ثبوت ہے کہ انسان خدائی طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔ ہر آدمی لازماً ایک مقررہ وقت پر مر جائے گا، اور کوئی نہیں جو اس کو موت کے فرشتے سے بچا سکے۔ایسی حالت میں آدمی کو سب سے زیادہ موت کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہو نا چاہيے۔ موت سے پہلے کی زندگی میں جن لوگوں نے جنت والے اعمال کيے ہیں ان کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ اس کے برعکس، جولوگ دنیا میں خدا سے دور تھے وہ آخرت میں بھی خدا کی رحمتوں سے دور رکھے جائیں گے۔ ان کی ضیافت کے ليے وہاں گرم پانی ہے اور ان کے رہنے کے ليے وہاں آگ کی دنیا۔