Al-Hashr • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَخْرَجَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ مِن دِيَٰرِهِمْ لِأَوَّلِ ٱلْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا۟ ۖ وَظَنُّوٓا۟ أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ ٱللَّهِ فَأَتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا۟ ۖ وَقَذَفَ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِى ٱلْمُؤْمِنِينَ فَٱعْتَبِرُوا۟ يَٰٓأُو۟لِى ٱلْأَبْصَٰرِ ﴾
“He it is who turned out of their homes, at the time of [their] first gathering [for war], such of the followers of earlier revelation as were bent on denying the truth. You did not think [O believers] that they would depart [without resistance] - just as they thought that their strongholds would protect them against God: but God came upon them in a manner which they had not expected, and cast terror into their hearts; [and thus] they destroyed their homes by their own hands as well as the hands of the believers. Learn a lesson, then, O you who are endowed with insight!”
مدینہ کے مشرق میں یہودی قبیلہ بنو نضیر کی آبادی تھی۔ ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا۔ مگر انہوں نے بار بار عہد شکنی کی۔ آخر کار 4 ھ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ مسلمانوں نے ان کو مدینہ سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد وہ خیبر اور شام كے علاقے میں جا کر آباد ہوگئے۔ مگر ان کی سازشی سرگرمیاں جاري رہیں۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں وہ اور دوسرے یہودی قبائل جزیرهٔ عرب سے نکلنے پر مجبور کردیے گئے۔ اس کے بعد وہ لوگ شام میں جا کر آباد ہوئے۔ ’’اللہ ان پر وہاں سے پہنچا جہاں ان کو گمان بھی نہ تھا‘‘ کی تشریح اگلے فقرہ میں موجود ہے۔ یعنی اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ انہوں نے بیرونی طور پر ہر قسم کی تیاریاں کیں۔ مگر جب مسلمانوں کی فوج نے ان کی آبادی کو گھیر لیا تو ساری طاقت کے باوجود ان پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ انہوں نے لڑنے کا حوصلہ کھودیا۔ اور بلا مقابلہ ہتھیار ڈال دیا۔