slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 106 من سورة سُورَةُ الأَنۡعَامِ

Al-An'aam • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ٱتَّبِعْ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْمُشْرِكِينَ ﴾

“follow thou what has been revealed unto thee by thy Sustainer - save whom there is no deity - and turn thy back upon all who ascribe divinity to aught beside Him.”

📝 التفسير:

ایک شخص وہ ہے جس کے اندر طلب کی نفسیات ہو، جو سچائی کی تلاش میں رہتا ہو۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو دولت یا اقتدار کا کوئی حصہ پاکر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کے اندر کوئی کمی نہیں ہے جو کوئی شخص آکر پوری کرے۔ حق کی دعوت جب اٹھتی ہے تو اس کو قبول کرنے والے زیادہ تر پہلی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو دوسری قسم کے لوگ ہیں وہ اس کو کوئی قابل لحاظ چیز نہیں سمجھتے۔ وہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرتے۔ اس لیے اس کی اہمیت بھی ان پر واضح نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں حق کی دعوت کا مقصد دو ہوتا ہے۔ جو سچے طالب ہیں ان کی طلب کا جواب فراہم کرنا۔ اور جو لوگ طالب نہیں ہیں ان پر حجت قائم کرنا۔ پہلی قسم کے لوگوں کے لیے دعوت کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ماننے والے بن جائیں۔ اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے یہ کہ وہ کہہ اٹھیں کہ ’’تم نے بتادیا، تم نے بات ہم تک پہنچادی‘‘۔ جو لوگ دعوت کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے انکار کو برحق ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں نکالتے ہیں۔ ایسے موقع پر داعی کے دل میں یہ خیال آنے لگتا ہے کہ وہ دعوت کے انداز میں ایسی تبدیلی کردے جس سے وہ مدعو کے لیے قابل قبول بن جائے۔ مگر اس قسم کا انحراف درست نہیں۔ داعی کو ہمیشہ اسی اسلوب پر قائم رہنا چاہیے جو براہِ راست خدا کی طرف سے تلقین کیاگیا ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد انسان کو خدا سے جوڑنا ہے، نہ کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو اپنے حلقہ میں شامل کرنا۔ دوسری طرف یہ بات بھی غلط ہے کہ مدعو کے رویہ سے مشتعل ہو کر ایسی باتیں کی جائیں کہ اس کی گمراہی جاہلانہ بد کلامي تک جاپہنچے۔ آدمی جن خاص روایات میں پیدا ہوتاہے اور جن افکار سے وہ مانوس ہوجاتا ہے، ان کے حق میں اس کے اندر ایک طرح کی عصبیت پیدا ہوجاتی ہے۔اس کے مطابق اس کا ایک فکری ڈھانچہ بن جاتا ہے جس کے تحت وہ سوچتا ہے۔ یہی فکری ڈھانچہ حق کو قبول کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک آدمی اس فکری ڈھانچہ کو نہ توڑے اس کے ذہن میں وہ دروازہ نہیں کھلتا جس کے ذریعہ حق کی آواز اس کے اندر داخل ہو۔