Al-An'aam • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًۭا يَٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ قَدِ ٱسْتَكْثَرْتُم مِّنَ ٱلْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَآؤُهُم مِّنَ ٱلْإِنسِ رَبَّنَا ٱسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍۢ وَبَلَغْنَآ أَجَلَنَا ٱلَّذِىٓ أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ ٱلنَّارُ مَثْوَىٰكُمْ خَٰلِدِينَ فِيهَآ إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌۭ ﴾
“AND ON THE DAY when He shall gather them [all] together, [He will say:] "O you who have lived in close communion with [evil] invisible beings! A great many [other] human beings have you ensnared! And those of the humans who were close to them will say: "O our Sustainer! We did enjoy one another's fellowship [in life]; but (now that] we have reached the end of our term-the term which Thou hast laid down for us - (we see the error of our ways]!" [But] He will say: "The fire shall be your abode, therein to abide-unless God wills it otherwise." Verily, thy Sustainer is wise, all-knowing.”
کسی کے گمراہ کرنے سے جب کوئی شخص گمراہ ہوتا ہے تو یہ يک طرفہ معاملہ نہیں ہوتا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنا مقصد پورا کررہے ہیں۔ شیطان جب آدمی کو سبز باغ دکھا کر اپنی طرف لے جاتا ہے تو وہ اپنے اس چیلنج کو صحیح ثابت کرنا چاہتاہے، جو اس نے آغاز تخلیق میں خدا کو دیا تھا کہ میں تیری مخلوق کے بڑے حصہ کو اپنا ہم نوا بنالوں گا(بنی اسرائیل، 17:61 ) دوسری طرف جو لوگ اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کرتے ہیں ان کے سامنے بھی واضح مفادات ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جنوں کے نام پر اپنے سحر کے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں یا اپنی شاعری اور کہانت کا رشتہ کسی جنّی استاد سے جوڑ کر عوام کے اوپر اپنی برتری قائم کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام تحریکیں جو شیطانی ترغیبات کے تحت اٹھتی ہیں، ان کا ساتھ دینے والے بھی اسی ليے ان کا ساتھ دیتے ہیں کہ ان کو امید ہوتی ہے کہ اس طرح عوام کے اوپر آسانی کے ساتھ وہ اپنی قیادت قائم کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے مقابلہ میں شیطانی نعرے ہمیشہ عوام کی بھیڑ کے لیے زیادہ پرکشش ثابت ہوئے ہیں۔ قیامت میں جب حقیقتوں سے پردہ اٹھایا جائے گا تو یہ بات کھل جائے گی کہ جو لوگ بے راہ ہوئے یا جنھوں نے دوسروں کو بے راہ کیا انھوںنے کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا نہیں کیا۔ اس کی وجہ حق کو نظر انداز کرنا تھا، نہ کہ حق سے بے خبر رہنا۔ وہ دنیوی تماشوں سے اوپر نہ اٹھ سکے، وہ وقتی فائدوں کو قربان نہ کرسکے۔ ورنہ خدا نے اپنے خاص بندوں کے ذریعہ جو ہدایت کھولی تھی وہ اتنی واضح تھی کہ کوئی شخص حقیقتِ حال سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر ان کی دنیا پرستی ان کی آنکھوں کا پردہ بن گئی۔ جاننے کے باوجود انھوں نے نہ جانا۔ سننے کے باوجود انھوں نے نہ سنا۔ آخرت میں وہ مصنوعی سہارے ان سے چھن جائیں گے جن کے بل پر وہ حقیقت سے بے پروا بنے ہوئے تھے۔ اس وقت ان کو نظر آجائے گا کہ کس طرح ایسا ہوا کہ حق ان کے سامنے آیا مگر انھوں نے جھوٹے الفاظ بول کر اس کو رد کردیا۔ کس طرح ان کی غلطی ان پر واضح کی گئی مگر خوبصورت تاویل کرکے انھوں نے سمجھا کہ اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے ہیں۔