slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 151 من سورة سُورَةُ الأَنۡعَامِ

Al-An'aam • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ۞ قُلْ تَعَالَوْا۟ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْـًۭٔا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًۭا ۖ وَلَا تَقْتُلُوٓا۟ أَوْلَٰدَكُم مِّنْ إِمْلَٰقٍۢ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا۟ ٱلْفَوَٰحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا۟ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴾

“Say: "Come, let me convey unto you what God has [really] forbidden to you: "Do not ascribe divinity, in any way, to aught beside Him; and [do not offend against but, rather,] do good unto your parents; and do not kill your children for fear of poverty - [for] it is We who shall provide sustenance for you as well as for them; and do not commit any shameful deeds, be they open or secret; and do not take any human being's life-[the life] which God has declared to be sacred -otherwise than in [the pursuit of] justice: this has He enjoined upon you so that you might use your reason;”

📝 التفسير:

خدائی پابندی کے نام پر لوگ طرح طرح کی رسمی اور ظاہری پابندیاں بنا لیتے ہیں اور ان کا خصوصی اہتمام کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انھوں نے خدائی پابندیوں کا حق ادا کردیا۔ مگر خدا انسان سے جن پابندیوں کا اہتمام چاہتا ہے وہ حقیقی پابندیاں ہیں، نہ کہ کسی قسم کے رسمی مظاہر۔ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ آدمی ایک خدا کو اپنا خدا بنائے۔ اس کے سوا کسی کی بڑائی کا غلبہ اس کے ذہن پر نہ ہو۔ اس کے سوا کسی کو وہ قابل بھروسہ نہ سمجھتا ہو۔اس کے سوا کسی سے وہ امید قائم نہ کرے اس کے سوا کسی سے وہ نہ ڈرے اور نہ اس کے سوا کسی کی شدید محبت میں مبتلا ہو۔ والدین اکثر حالات میں کمزور او رمحتاج ہوتے ہیں اور اولاد طاقت ور۔ ان سے حسن سلوک کا محرک مفاد نہیںہوتا بلکہ صرف حق شناسی ہوتا ہے۔ اس طرح والدین کے حقوق ادا کرنے کا معاملہ آدمی کے ليے اس بات کا سب سے پہلا امتحان بن جاتا ہے کہ اس نے خدا کے دین کو قول کی سطح پر اختیار کیا ہے یا عمل کی سطح پر۔ اگر وہ والدین کی کمزوری کے بجائے ان کے حق کو اہمیت دے، اگر اپنے دوستوں اور اپنی بیوی بچوں کی محبت اس کو والدین سے دور نہ کرے تو گویا اس نے اس بات کا پہلا ثبوت دے دیا کہ اس کا اخلاق اصول پسندی اور حق شناسی کے تابع ہوگا، نہ کہ مفاد اور مصلحت کے تابع۔ انسان اپنے حرص اور ظلم کی وجہ سے خدا کے پیدا كيے ہوئے رزق کو تمام بندوں تک منصفانہ طورپر پہنچنے نہیں دیتا۔ اور جب اس کی وجہ سے قلت کے مصنوعی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ کھانے والوں کو قتل کردو یا پیداہونے والوںكو پیدا نہ ہونے دو۔ اس قسم کی باتیں خدا کے نظام رزق پر بہتان کے ہم معنیٰ ہیں۔ بہت سی برائیاں ایسی ہیں جو اپنی ہیئت میںاتنی فحش ہوتی ہیں کہ ان کی برائی کو جاننے کے ليے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسانی فطرت اور اس کا ضمیر ہی یہ بتانے کے ليے کافی ہے کہ یہ کام انسان کے کرنے کے قابل نهيں۔ ايسي حالت ميں جو شخص فحاشي يا بے حيائي كے كام ميں مبتلا هو وه گويا ثابت كررها هے كه وه اس ابتدائي درجهٔ انسانیت سے بھی محروم ہے جہاں سے کسی انسان کے انسان ہونے کا آغاز ہوتا ہے۔ ہر انسان کی جان محترم ہے۔ کسی انسان کو ہلاک کرنا کسی کے ليے جائز نہیں جب تک خالق کے قانون کے مطابق وہ کوئی ایسا جرم نہ کرے جس میں اس کی جان لینا مخصوص شرائط کے ساتھ مباح ہوگیاہو — یہ باتیں اتنی واضح ہیں کہ عقل سے کام لینے والا ان کی صداقت کو جاننے سے محروم نہیں رہ سکتا۔