slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 152 من سورة سُورَةُ الأَنۡعَامِ

Al-An'aam • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَلَا تَقْرَبُوا۟ مَالَ ٱلْيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُۥ ۖ وَأَوْفُوا۟ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ بِٱلْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَٱعْدِلُوا۟ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ ٱللَّهِ أَوْفُوا۟ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾

“and do not touch the substance of an orphan - save to improve it-before he comes of age." And [in all your dealings] give full measure and weight, with equity: [however,] We do not burden any human being with more than he is well able to bear; and when you voice an opinion, be just, even though it be [against] one near of kin. And [always] observe your bond with God: this has He enjoined upon you, so that you might keep it in mind.”

📝 التفسير:

یتیم کسی سماج کا سب سے کمزور فرد ہوتاہے۔ وہ تمام اضافی اسباب اس کی ذات میں حذف ہوجاتے ہیں جو عام طورپر کسی کے ساتھ اچھے سلوک کا محرک بنتے ہیں۔ ’’یتیم‘‘ کے ساتھ ذمہ داری کا معاملہ وہی شخص کرسکتاہے جو خالص اصولی بنیاد پر باکردار بنا ہو، نہ کہ فائدہ اور مصلحت کی بنیاد پر۔ یتیم کسی سماج میں حسن سلوک کی آخری علامت ہوتا ہے۔ جوشخص یتیم کے ساتھ خیر خواہانہ سلوک کرے وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بدرجہ اولیٰ خیر خواہانہ سلوک کرے گا۔ کائنات کی ہر چیز دوسری چیز سے اس طرح وابستہ ہے کہ ہر چیز دوسرے کو وہی دیتی ہے جو اس کو دینا چاہيے اور دوسرے سے وہی چیز لیتی ہے جو اس کو لینا چاہیے۔ یہی اصول انسان کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ انسان کوچاہیے کہ جب وہ دوسرے انسان کے لیے ناپے تو ٹھیک ناپے اور جب تولے تو ٹھیک تولے۔ ایسا نہ کرے کہ اپنے ليے ایک پیمانہ استعمال کرے ا ور غیر کے ليے دوسرا پیمانہ۔ زندگی میں بار بار ایسے مواقع آتے ہیں کہ آدمی کو کسی کے خلاف اظہار رائے کرنا ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر خدا کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی وہی بات کہے جو انصاف کے معیار پر پوری اترنے والی ہو۔ کوئی اپنا ہو یا غیر ہو۔ اس سے دوستی کے تعلقات ہوں یا دشمنی کے تعلقات، ایسا شخص ہو جس سے کوئی فائدہ وابستہ ہے یا ایسا شخص ہو جس سے کوئی فائدہ وابستہ نہیں، ان تمام چیزوں کی پروا كيے بغیر آدمی وہی کہے جو فی الواقع درست اور حق ہے۔ ہر آدمی فطرت کے عہد میں بندھا ہوا ہے۔ کوئی عہد لکھا ہوا ہوتا ہے اور کوئی عہد وہ ہوتا ہے جو لفظوں میں لکھا ہوا نہیں ہوتا مگرآدمی کا ایمان، اس کی انسانیت اور اس کی شرافت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس موقع پر ایسا کیا جائے۔ دونوں قسم کے عہدوں کو پورا کرنا ہر مومن ومسلم کا فریضہ ہے— یہ تمام باتیں انتہائی واضح ہیں۔ آسمانی وحی اور آدمی کی عقل ان کے برحق ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ مگر ان سے وہی شخص نصیحت پکڑے گا، جو خود بھی نصیحت پکڑنا چاہتا ہو۔ یہ احکام (الانعام، 6:151-153 )شریعت الٰہی کے بنیادی احکام ہيں۔ ان پر ان کے سیدھے مفہوم کے اعتبار سے عمل کرنا خدا کی سیدھی شاہراہ پر چلنا ہے۔ اور اگر تاویل اور موشگافیوں کے ذریعہ ان میں شاخیں نکالی جائیں اور سارا زور ان شاخوں پر دیا جانے لگے تو یہ اِدھر اُدھر کے متفرق راستوں میں بھٹکنا ہے جو کبھی آدمی کو خدا تک نہیں پہنچاتا۔