Al-An'aam • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَآءَ بِٱلسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰٓ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴾
“Whoever shall come [before God] with a good deed will gain ten times the like thereof; but whoever shall come with an evil deed will be requited with no more than the like thereof; and none shall be wronged.”
دین یہ ہے کہ آدمی ایک خدا کے سوا کسی کو اپنی زندگی میں برترمقام نہ دے۔ وہ حق شناسی کی بنیاد پر تعلقات قائم کرے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر، جس کی پہلی علامت والدین ہیں۔ وہ رزق کو خدا کا عطیہ سمجھے اور خدائی نظام میں مداخلت نہ کرے، اس معاملہ میں آدمی کی گمراہی اس کو قتل اولاد اور تحدید نسل کی حماقت تک لے جاتی ہے ۔ وہ فحش اور بے حیائی کے کاموں سے بچے تاکہ برائی کے بارے میں اس کے دل کی حساسیت زندہ رہے۔ وہ کم زور کا استحصال نہ کرے جس کا قریبی امتحان آدمی کے ليے یتیم کی صورت میں ہوتا ہے۔ وہ حقوق کی ادائیگی اور لین دین میں ترازو کی طرح بالکل ٹھیک ٹھیک رہے۔ وہ اپنی زبان کا استعمال ہمیشہ حق کے مطابق کرے۔ وہ اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ ہر حال میں وہ عہد خداوندی میں بندھا ہوا ہو، وہ کسی بھی وقت خدائی عہد کی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہے۔ یہی کسی آدمی کے ليے خدا کی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ ہے۔ آدمی کو چاہيے کہ وہ دائیں اور بائیں بھٹکے بغیر اس سیدھے راستہ پر ہمیشہ قائم رہے۔ اوپر جو دس احکام(آيات 151-153)بیان ہوئے وہ سب سادہ فطری احکام ہیں۔ ہر آدمی کی عقل ان کے سچے ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ اگر صرف ان چیزوں پر زور دیا جائے تو کبھی اختلاف اور فرقہ بندی نہ ہو۔ مگر جب قوموں پر زوال آتا ہے تو ان میں ایسے رہنما پیدا ہوتے ہیں جو ان سادہ احکام میں طرح طرح کی غیر فطری شقیں نکالتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو دینی اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے۔ توحید میںاگر یہ بحث چھیڑی جائے کہ خدا جسم رکھتا ہے یا وہ بغیر جسم ہے۔ یتیم کے معاملے میں موشگافیاں کی جائیں کہ یتیم ہونے کی شرائط کیا ہیں۔ یا یہ نکتہ نکالا جائے کہ ان خدائی احکام پر اس وقت تک عمل نہیں ہوسکتا جب تک حکومت پر قبضہ نہ ہو۔ اس لیے سب سے پہلا کام ’’غیر اسلامی‘‘ حکومت کو بدلنا ہے — اس قسم کی بحثیں اگر شروع کردی جائیں تو ان کی کوئی حد نہ ہوگی۔ اور ان پر عمومی اتفاق حاصل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے بعد مختلف فکری حلقے بنیں گے۔ الگ الگ فرقے اور جماعتیں قائم ہوں گی۔ باہمی اتفاق باہمی افتراق کی صورت اختیار کرلے گا۔ اس سادہ اور فطری دین پر اپنی ساری توجہ لگانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ مگر اس کے ليے آدمی کو نفس سے لڑنا پڑتا ہے۔ ماحول کی ناسازگاری کے باوجود صبر اور قربانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر جمے رہنا پڑتا ہے۔ یہ ایک بڑا پُرمشقت عمل ہے اس ليے اس کا بدلہ بھی خدا کے یہاں کئی گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ جو لوگ برائی کرتے ہیں، جو خدا کی دنیا میں خدا کے مقرر راستہ کے سوا دوسرے راستوں پر چلتے ہیں وہ اگر چہ بہت بڑا جرم کرتے ہیں۔ تاہم خدا ان کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کرتا۔ وہ ان کو اتنی ہی سزا دیتا ہے جتنا انھوں نے جرم کیا ہے۔