Al-An'aam • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَٰٓئِفَ ٱلْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍۢ دَرَجَٰتٍۢ لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَىٰكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ ٱلْعِقَابِ وَإِنَّهُۥ لَغَفُورٌۭ رَّحِيمٌۢ ﴾
“For, He it is who has made you inherit the earth, and has raised some of you by degrees above others, so that He might try you by means of what He has bestowed upon you. Verily, thy Sustainer is swift in retribution: yet, behold, He is indeed much-forgiving, a dispenser of grace.”
قرآن کی صورت میں خدا نے اپنا وہ بے آمیز دین نازل کردیا ہے جو اس نے حضرت ابراہیم اور دوسرے پیغمبروں کو دیا تھا۔ اب جو شخص خدا کی رحمت ونصرت میںحصہ دار بننا چاہتاہو وہ اس دین کو پکڑ لے، وہ اپنی عبادت کو خدا کے ليے خاص کردے۔ وہ خدا سے قرباني کی سطح پر تعلق قائم کرے۔ وہ جئے تو خدا کے ليے جئے اور اس کو موت آئے تو اس حال میں آئے کہ وہ ہمہ تن خدا کا بندہ بنا ہوا ہو۔ عظیم کائنات اپنے تمام اجزا کے ساتھ اطاعت خداوندی کے اسی دین پر قائم ہے۔ پھر انسان اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ کیسے اختیار کرسکتاهے۔ خدا کی اطاعت کی دنیا میں خدا کی سرکشی کا طریقہ اختیار کرنا کسی کے ليے کامیابی کا سبب کس طرح بن سکتا ہے۔ یہ معاملہ ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے، کوئی نہ کسی کے انعام میں شریک ہوسکتا اور نہ کوئی کسی کی سزا میں آدمی کو چاہیے کہ اس معاملہ میں وہ اسی طرح سنجیدہ ہو جس طرح دنیا میں کوئی مسئلہ کسی کا ذاتی مسئلہ ہو تو وہ اس میں آخری حد تک سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ دنیا کا نظام یہ ہے کہ یہاں ایک شخص جاتاہے اور دوسرا اس کی جگہ آتا ہے۔ ایک قوم پیچھے ہٹا دی جاتی ہے اور دوسری قوم اس کے بجائے زمین کے ذرائع ووسائل پر قبضہ کرلیتی ہے۔ یہ واقعہ بار بار یاد دلاتا ہے کہ یہاں کسی کا ااقتدار دائمی نہیں۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جس کسی کو زمین پر موقع ملتاہے تو وہ گزرے ہوئے لوگوں کے انجام کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے ظلم اور سرکشی کو جائز ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کے دلائل گھڑ لیتا ہے مگر جب خدا حقیقتوں کو برہنہ کرے گا تو آدمی دیکھے گا کہ اس کی ان باتوں کی کوئی قیمت نہ تھی، جن کو وہ اپنے موقف کے جواز کے ليے مضبوط دلیل سمجھے ہوئے تھا۔ دنیا میں آدمی کی سرکشی کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں کو اپنے حق میں خدا کا انعام سمجھ ليتاہے ہے۔ حالاں کہ دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتاہے وہ صرف بطور آزمائش ہے، نہ کہ بطور انعام۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر انعام سمجھے تو اس کے اندر فخر پیدا ہوگا اور اگر وہ ان کو آزمائش سمجھے تو اس کے اندر عجز پیدا ہوگا۔ فخر کی نفسیات ڈھٹائی پیدا کرتی ہے اور عجز کی نفسیات اطاعت۔