Al-An'aam • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَٰدَىٰ كَمَا خَلَقْنَٰكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍۢ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَٰٓؤُا۟ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴾
“[And God shall say:] "And now, indeed, you have come unto Us in a lonely state, even as We created you in the first instance; and you have left behind you all that We bestowed on you [in your lifetime]. And We do not see with you those intercessors of yours whom you supposed to have a share in God's divinity with regard to yourselves! Indeed, all the bonds between you [and your earthly life] are now severed, and all your former fancies have forsaken you!”
اللہ جب اپنے کسی بندے کو اپنی پکار بلند کرنے کے لیے کھڑا کرتا ہے تو اسی کے ساتھ اس کو خصوصی توفیق بھی عطا کرتا ہے۔ اس کے کردار میں خوفِ آخرت کی جھلک ہوتی ہے۔ اس کی باتوں میں خدائی استدلال کی طاقت نظر آتی ہے ۔ بے پناہ مخالفتوں کے باوجود وه اپنے پیغام رسانی کے عمل کو اعلیٰ ترین شکل میں جاری رکھنے میں کامیاب ہوتاہے۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی زمین پر خدا کی نشانی ہوتا ہے۔ مگر جن کی نگاہیں دنیوی عظمت کی چیزوں میں گم ہوں وہ آخرت کے داعی کی عظمت کو سمجھ نہیں پاتے۔ حتی کہ ان کے مادی پیمانہ میں ان کی اپنی ذات برتر اور اللہ کے داعی کی ذات کم تر دکھائی دیتی ہے۔ یہ چیز ان کو تکبر میں مبتلا کردیتی ہے اور جو لوگ تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائیں ان سے کوئی بھی نامعقول رویہ مستبعد نہیں رہتا۔ حتی کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ وہ بھی ویسا ہی کلام تخلیق کرسکتے ہیں جیسا کلام خدا کی طرف سے کسی بندہ پر اترتا ہے — وہ خدا کو طلسماتی نشانیوں ميں دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ بشری نشانیوں میں ظاہر ہونے والے خدا کو پہچان نہیں پاتے۔ یہ تکبر جو کسی آدمی کے اندر پیداہوتا ہے وہ اس دنیوی حیثیت اور مادی سامان کی بنا پر ہوتا ہے جو اس کو دنیا میں ملا ہوا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ اسے حاصل ہے وہ محض آزمائش کے لیے اور متعین مدت تک کے لیے ہے۔ موت کا وقت آتے ہی اچانک یہ تمام چیزیں چھن جائیں گی۔ اس کے بعد ہر آدمی اپنی زندگی کے اس مرحلہ میں پہنچ جاتاہے، جہاں نہ اس کی دولت ہوگی اور نہ اس کی حیثیت، جہاں نہ اس کے ساتھي ہوں گے اور نہ اس کے سفارشی۔ وہ ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ دنیا میں اس کو جن چیزوں پر ناز تھا ان میں سے کوئی چیز بھی اس دن اس کو خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے موجود نہ ہوگی۔ دنیا میں ہر آدمی الفاظ کے طلسم میں جیتا ہے۔ ہر آدمی اپنے حسبِ حال ایسے الفاظ تلاش کرلیتا ہے جس میں اس کا وجود بالکل برحق دکھائی دے، اس کا راستہ سیدھا منزل کی طرف جاتاہوا نظر آئے۔ مگر آخرت کا انقلاب جب حقیقتوں کے پردے پھاڑ دے گا تو لوگوں کے یہ الفاظ اس قدر بے معنی ہوجائیں گے جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔