Al-Qalam • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لَّوْلَآ أَن تَدَٰرَكَهُۥ نِعْمَةٌۭ مِّن رَّبِّهِۦ لَنُبِذَ بِٱلْعَرَآءِ وَهُوَ مَذْمُومٌۭ ﴾
“[And remember:] had not grace from his Sustainer reached him, he would indeed have been cast forth upon that barren shore in a state of disgrace:”
داعی اور مدعو کا رشتہ بے حد نازک رشتہ ہے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو حسن اخلاق کا پابند بنانا پڑتا ہے۔ مدعو بے دلیل باتیں کرے، وہ داعی کو حقیر سمجھے، وہ داعی پر جھوٹا الزام لگائے۔ وہ خواہ کچھ بھی کرے، داعی کو ہرحال میں اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ داعی کی کامیابی کا راز دو چیزوں میں چھپا ہوا ہے— مدعو کی زیادتیوں پر صبر اور مدعو سے کوئی مادی غرض نہ رکھنا۔