Nooh • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ رَّبِّ ٱغْفِرْ لِى وَلِوَٰلِدَىَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِىَ مُؤْمِنًۭا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتِ وَلَا تَزِدِ ٱلظَّٰلِمِينَ إِلَّا تَبَارًۢا ﴾
“"O my Sustainer! Grant Thy forgiveness unto me and unto my parents, and unto everyone who enters my house as a believer, and unto all believing men and believing women [of later times]; and grant Thou that the doers of evil shall increasingly meet with destruction!"'”
حضرت نوح کی دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے زمانہ میں بگاڑ اپنی آخری حد تک پہنچ چکا تھا۔ پورے معاشرے میں گمراہ عقائد و خیالات اس طرح چھا گئے تھے کہ جو بچہ اس معاشرہ میں پیدا ہو کر اٹھتا، وہ گمراہی کے خیالات لے کر اٹھتا۔ جب معاشرہ اس درجہ کو پہنچ جائے تو اس کے بعد اس کے لیے اس کے سوا کچھ اور مقدر نہیں ہوتا کہ ’’طوفان نوح‘‘ کے ذریعہ اس کا خاتمہ کردیا جائے۔