🕋 تفسير سورة المزمل
(Al-Muzzammil) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ
📘 ’’ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘کا مطلب یہ ہے کہ مفہوم پر دھیان دیتے ہوئے پڑھو۔ جب آدمی ایسا کرے تو قاری اور قرآن کے درمیان ایک دو طرفہ عمل شروع ہوجاتا ہے۔ قرآن اس کے لیے ایک الٰہی خطاب ہوتا ہے اور اس کا دل ہر آیت پر اس خطاب کا جواب دیتا چلا جاتا ہے۔ جب قرآن میں اللہ کی بڑائی کا ذکر آتا ہے تو قاری کا پورا وجود اس کی بڑائی کے احساس سے دب جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کے احسانات بتائے جاتے ہیں تو اس کو سوچ کر قاری کا دل خدا کے شکر سے بھر جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کی پکڑ کا بیان ہوتا ہے تو قاری اس کو پڑھ کر کا نپ اٹھتا ہے۔ جب قرآن میں کوئی حکم بتایا جاتا ہے تو قاری کے اندر یہ جذبه مستحکم ہوتا ہے کہ وہ اس حکم کو اختیار کر کے اپنے رب کا فرماں بردار بنے۔
’’بھاری قول‘‘سے مراد انذار کا وہ حکم ہے جو اگلی سوره المدثرآيت 3میں آ رہا ہے (قُمْ فَأَنْذِرْ)۔ یعنی آخرت کے مسئلہ سے لوگوں کو آگاہ کردے۔ یہ کام بلاشبہ اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس کے لیے داعی کو بے آمیز حق پر کھڑا ہونا پڑتا ہے، خواہ وہ تمام لوگوں کے درمیان اجنبی بن جائے۔ اس کو لوگوں کی ایذاؤں کو برداشت کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کے اور مخاطبین کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ آخر وقت تک باقی رہے۔ اس کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو صبر اور اعراض کا پابند کرنا پڑتا ہے۔ تاکہ کسی بھی حال میں اس کی داعیانہ حیثیت مجروح نہ ہونے پائے۔
وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
إِنَّ لَدَيْنَا أَنْكَالًا وَجَحِيمًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَهِيلًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
فَعَصَىٰ فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ ۚ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا
📘 ’’ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘کا مطلب یہ ہے کہ مفہوم پر دھیان دیتے ہوئے پڑھو۔ جب آدمی ایسا کرے تو قاری اور قرآن کے درمیان ایک دو طرفہ عمل شروع ہوجاتا ہے۔ قرآن اس کے لیے ایک الٰہی خطاب ہوتا ہے اور اس کا دل ہر آیت پر اس خطاب کا جواب دیتا چلا جاتا ہے۔ جب قرآن میں اللہ کی بڑائی کا ذکر آتا ہے تو قاری کا پورا وجود اس کی بڑائی کے احساس سے دب جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کے احسانات بتائے جاتے ہیں تو اس کو سوچ کر قاری کا دل خدا کے شکر سے بھر جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کی پکڑ کا بیان ہوتا ہے تو قاری اس کو پڑھ کر کا نپ اٹھتا ہے۔ جب قرآن میں کوئی حکم بتایا جاتا ہے تو قاری کے اندر یہ جذبه مستحکم ہوتا ہے کہ وہ اس حکم کو اختیار کر کے اپنے رب کا فرماں بردار بنے۔
’’بھاری قول‘‘سے مراد انذار کا وہ حکم ہے جو اگلی سوره المدثرآيت 3میں آ رہا ہے (قُمْ فَأَنْذِرْ)۔ یعنی آخرت کے مسئلہ سے لوگوں کو آگاہ کردے۔ یہ کام بلاشبہ اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس کے لیے داعی کو بے آمیز حق پر کھڑا ہونا پڑتا ہے، خواہ وہ تمام لوگوں کے درمیان اجنبی بن جائے۔ اس کو لوگوں کی ایذاؤں کو برداشت کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کے اور مخاطبین کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ آخر وقت تک باقی رہے۔ اس کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو صبر اور اعراض کا پابند کرنا پڑتا ہے۔ تاکہ کسی بھی حال میں اس کی داعیانہ حیثیت مجروح نہ ہونے پائے۔
۞ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۚ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 دین میں جو فرض اعمال ہیں وہ عام انسان کی استطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مقرر کیے گئے ہیں۔ مگر یہ فرائض صرف لازمی حدود کو بتاتے ہیں۔ اس لازمی حد کے آگے بھی مطلوب اعمال ہیں۔ مگر وہ نوافل ہیں۔ مثلاً پنج وقته نمازوں کے بعد تہجد، زکوۃ کے بعد مزید انفاق وغیرہ۔ یہ آدمی کے اپنے حوصلے کا امتحان ہے کہ وہ کتنا زیادہ عمل کرتا ہے اور آخرت میں کتنا زیادہ انعام کا مستحق بنتا ہے۔
نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا
📘 ’’ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘کا مطلب یہ ہے کہ مفہوم پر دھیان دیتے ہوئے پڑھو۔ جب آدمی ایسا کرے تو قاری اور قرآن کے درمیان ایک دو طرفہ عمل شروع ہوجاتا ہے۔ قرآن اس کے لیے ایک الٰہی خطاب ہوتا ہے اور اس کا دل ہر آیت پر اس خطاب کا جواب دیتا چلا جاتا ہے۔ جب قرآن میں اللہ کی بڑائی کا ذکر آتا ہے تو قاری کا پورا وجود اس کی بڑائی کے احساس سے دب جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کے احسانات بتائے جاتے ہیں تو اس کو سوچ کر قاری کا دل خدا کے شکر سے بھر جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کی پکڑ کا بیان ہوتا ہے تو قاری اس کو پڑھ کر کا نپ اٹھتا ہے۔ جب قرآن میں کوئی حکم بتایا جاتا ہے تو قاری کے اندر یہ جذبه مستحکم ہوتا ہے کہ وہ اس حکم کو اختیار کر کے اپنے رب کا فرماں بردار بنے۔
’’بھاری قول‘‘سے مراد انذار کا وہ حکم ہے جو اگلی سوره المدثرآيت 3میں آ رہا ہے (قُمْ فَأَنْذِرْ)۔ یعنی آخرت کے مسئلہ سے لوگوں کو آگاہ کردے۔ یہ کام بلاشبہ اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس کے لیے داعی کو بے آمیز حق پر کھڑا ہونا پڑتا ہے، خواہ وہ تمام لوگوں کے درمیان اجنبی بن جائے۔ اس کو لوگوں کی ایذاؤں کو برداشت کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کے اور مخاطبین کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ آخر وقت تک باقی رہے۔ اس کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو صبر اور اعراض کا پابند کرنا پڑتا ہے۔ تاکہ کسی بھی حال میں اس کی داعیانہ حیثیت مجروح نہ ہونے پائے۔
أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا
📘 ’’ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘کا مطلب یہ ہے کہ مفہوم پر دھیان دیتے ہوئے پڑھو۔ جب آدمی ایسا کرے تو قاری اور قرآن کے درمیان ایک دو طرفہ عمل شروع ہوجاتا ہے۔ قرآن اس کے لیے ایک الٰہی خطاب ہوتا ہے اور اس کا دل ہر آیت پر اس خطاب کا جواب دیتا چلا جاتا ہے۔ جب قرآن میں اللہ کی بڑائی کا ذکر آتا ہے تو قاری کا پورا وجود اس کی بڑائی کے احساس سے دب جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کے احسانات بتائے جاتے ہیں تو اس کو سوچ کر قاری کا دل خدا کے شکر سے بھر جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کی پکڑ کا بیان ہوتا ہے تو قاری اس کو پڑھ کر کا نپ اٹھتا ہے۔ جب قرآن میں کوئی حکم بتایا جاتا ہے تو قاری کے اندر یہ جذبه مستحکم ہوتا ہے کہ وہ اس حکم کو اختیار کر کے اپنے رب کا فرماں بردار بنے۔
’’بھاری قول‘‘سے مراد انذار کا وہ حکم ہے جو اگلی سوره المدثرآيت 3میں آ رہا ہے (قُمْ فَأَنْذِرْ)۔ یعنی آخرت کے مسئلہ سے لوگوں کو آگاہ کردے۔ یہ کام بلاشبہ اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس کے لیے داعی کو بے آمیز حق پر کھڑا ہونا پڑتا ہے، خواہ وہ تمام لوگوں کے درمیان اجنبی بن جائے۔ اس کو لوگوں کی ایذاؤں کو برداشت کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کے اور مخاطبین کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ آخر وقت تک باقی رہے۔ اس کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو صبر اور اعراض کا پابند کرنا پڑتا ہے۔ تاکہ کسی بھی حال میں اس کی داعیانہ حیثیت مجروح نہ ہونے پائے۔
إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا
📘 ’’ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘کا مطلب یہ ہے کہ مفہوم پر دھیان دیتے ہوئے پڑھو۔ جب آدمی ایسا کرے تو قاری اور قرآن کے درمیان ایک دو طرفہ عمل شروع ہوجاتا ہے۔ قرآن اس کے لیے ایک الٰہی خطاب ہوتا ہے اور اس کا دل ہر آیت پر اس خطاب کا جواب دیتا چلا جاتا ہے۔ جب قرآن میں اللہ کی بڑائی کا ذکر آتا ہے تو قاری کا پورا وجود اس کی بڑائی کے احساس سے دب جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کے احسانات بتائے جاتے ہیں تو اس کو سوچ کر قاری کا دل خدا کے شکر سے بھر جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کی پکڑ کا بیان ہوتا ہے تو قاری اس کو پڑھ کر کا نپ اٹھتا ہے۔ جب قرآن میں کوئی حکم بتایا جاتا ہے تو قاری کے اندر یہ جذبه مستحکم ہوتا ہے کہ وہ اس حکم کو اختیار کر کے اپنے رب کا فرماں بردار بنے۔
’’بھاری قول‘‘سے مراد انذار کا وہ حکم ہے جو اگلی سوره المدثرآيت 3میں آ رہا ہے (قُمْ فَأَنْذِرْ)۔ یعنی آخرت کے مسئلہ سے لوگوں کو آگاہ کردے۔ یہ کام بلاشبہ اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس کے لیے داعی کو بے آمیز حق پر کھڑا ہونا پڑتا ہے، خواہ وہ تمام لوگوں کے درمیان اجنبی بن جائے۔ اس کو لوگوں کی ایذاؤں کو برداشت کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کے اور مخاطبین کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ آخر وقت تک باقی رہے۔ اس کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو صبر اور اعراض کا پابند کرنا پڑتا ہے۔ تاکہ کسی بھی حال میں اس کی داعیانہ حیثیت مجروح نہ ہونے پائے۔
إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔
رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا
📘 پیغمبر کا آنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے موسیٰ اور فرعون کے درمیان ہوا تھا۔ پھر یہی فیصلہ پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان ہوا۔ جو لوگ دنیا میں خدا کے داعی کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے لیے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخرت میں انہیں خدا کے عذاب کے آگے جھکنا پڑے۔