🕋 تفسير سورة القيامة
(Al-Qiyama) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
كَلَّا لَا وَزَرَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ
📘 آخرت کی طرف سے غفلت کی وجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتی ہے، اور وہ حبِّ عاجلہ ہے۔ یعنی اپنے عمل کا فوری نتیجہ چاہنا۔ آخرت کے لیے عمل کا نتیجہ دیر میں ملتا ہے ۔ اس لیے آدمی اس کو نظر انداز کردیتا ہے، اور دنیا کے لیے عمل کا نتیجہ فوراً ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے آدمی اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی پر آخر کار موت طاری ہوتی ہے اور اس کی تمام کامیابیوں کو باطل کردیتی ہے۔ مگر کوئی شخص اس سے سبق نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ خود اس کی موت کا لمحہ آجائے اور وہ اس سے سبق لینے کی مہلت چھین لے۔
فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
وَلَٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَىٰ
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَىٰ
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ
📘 انسان ابتداء ًاپنی ماں کی پیٹ میں ایک بوند کی مانند داخل ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھ کر علقہ (جونک) کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر مزید ترقی ہوتی ہے اور اس کے اعضاء اور نقوش بنتے ہیں۔ پھر وہ مرد یا عورت بن کر باہر آتا ہے۔ یہ تمام حیرت ناک تصرفات انسان کی کوشش کے بغیر ہوتے ہیں۔ پھر قدرت کا جو نظام روزانہ یہ عجائب ظہور میں لا رہا ہے اس کے لیے موجودہ دنیا کے بعد ایک اور دنیا بنا دینا کیا مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو ماننے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ لوگوں کی انانیت ہے، نہ کہ دلائل و قرائن کی کمی۔
بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
وَخَسَفَ الْقَمَرُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔
وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ اس کو لینے میں جلدی فرماتے۔ اس سے آپ کو منع کردیا گیا۔ اس سلسلہ میں مزید فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ اتر چکا ہے اور جو تم کو مخاطب بنا رہا ہے، اس پر ساری توجہ صرف کرو، نہ کہ قرآن کے اس بقیہ حصہ پر جو ابھی اترا نہیں اور جس نے ابھی تم کو مخاطب نہیں بنایا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جس وقت جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف ہے اسی پر اس کو سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ جس حصۂ قرآن کا ایک شخص مکلف نہ ہو اس کے پیچھے دوڑنا ’’عجلت‘‘ ہے جو قرآنی حکمت کے سراسر خلاف ہے۔