slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 15 من سورة سُورَةُ الأَنفَالِ

Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ زَحْفًۭا فَلَا تُوَلُّوهُمُ ٱلْأَدْبَارَ ﴾

“O YOU who have attained to faith! When you meet in battle those who are bent on denying the truth, advancing in great force, do not turn your backs on them:”

📝 التفسير:

اسلام اور غیر اسلام کا ٹکراؤ جب جنگ کے میدان تک پہنچ جائے تو یہ گویا دونوں فریقوں کے ليے آخری فیصلہ کا وقت ہوتا ہے۔ ایسے نازک لمحہ میں اگر کوئی شخص یا گروہ ایسا کرے کہ عین معرکہ کے وقت وہ میدان چھوڑ کر بھاگے تو اس نے بدترین جرم کیا۔ ایک طرف اس نے حق کو بچانے کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بچانے کو زیادہ اہم سمجھا، اس نے اپنے مقصد کے مقابلہ میں اپنی ذات کو ترجیح دی۔ اور یہ سب کچھ اس نے اس وقت کیا جب کہ اس حق کی زندگی کی بازی لگی ہوئی تھی جس کو اعلیٰ ترین صداقت قرار دے کر وہ اس پر ایمان لایا تھا۔ دوسرے یہ کہ ایسے نازک موقع پر اکثر ایک چھوٹا سا واقعہ بہت بڑے واقعہ کا سبب بن جاتاہے۔ ایک شخص یا ایک گروہ کا میدان چھوڑ کر بھاگنا پوری فوج کا حوصلہ توڑ دیتاہے۔ ایک شخص کی بھگدڑ بالآخر عام بھگدڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور ہنگامی حالات میں جب کسی مجمع میں عام بھگدڑ شروع ہوجائے تو وہ اپنی آخری حد پر پہنچنے سے پہلے کہیں نہیں رکتی۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ صورت ہے جب کہ کوئی سپاهی یا سپاہیوں کا کوئی دستہ جنگی تدبیر کے ليے پیچھے ہٹتاہے یا وہ اپنے ایک مورچہ سے ہٹ کر کسی دوسرے مورچہ کی طرف سمٹنا چاہتا ہے۔ فرار کے طور پر اگر کوئی پیچھے ہٹتا ہے تو وہ بلا شبہ ناقابل معافی جرم کرتاہے۔ مگر جو پیچھے ہٹنا تدبیر جنگ سے تعلق رکھتا ہو، وہ جائز ہے۔ اس کے ليے آدمی پر کوئی الزام نہیں۔ مذکورہ حکم اصلاً جنگ سے متعلق ہے۔ تاہم دوسری مشابہ صورتیں بھی درجہ بدرجہ اسی کے ذیل میں آسکتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص بے آمیز اسلام کے خاموش اور تعمیری عمل کی طرف لوگوں کو پکارے۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد جب وہ دیکھے کہ اس کی دعوت لوگوں میں زیادہ مقبول نہیں ہورہی ہے تو وہ بے صبري کا شکار ہو جائے اور خاموش تعمیر کے محاذ کو چھوڑ کر ایسے اسلام کی طرف دوڑے جس کے ذریعے عوام میں بہت جلد شہرت اور مرتبہ حاصل کیا جاسکتاہے۔ جنگ کے میدان سے بھاگنا شعور اور ارادہ کے تحت ہوتا ہے۔ مگر جنگی میدان کے باہر جو معرکہ جاری ہے اس سے ’’بھاگنا‘‘ ایک غیر شعوری واقعہ هے۔ آدمی طبعی طورپر نتیجہ پسند واقع ہوا ہے۔ وہ اپنے کام کا اعتراف چاہتا ہے۔ اس کا یہ مزاج غیر شعوری طورپر اس کو ان کاموں سے ہٹا دیتا ہے جن میں فوری نتیجہ نکلتا ہوا نظر نہ آتا ہو۔ وہ اپنے اندر کام کرنے والے غیر شعوری اثرات کے تحت ان چیزوں کی طرف کھنچ اٹھتا ہے جن میں بظاہر یہ امید ہو کہ فوراً عزت وکامیابی حاصل ہوجائے گی۔ اس قسم کا ہر انحراف اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی نوعیت کی چیز ہے جس کو مذکورہ آیت میں میدان مقابلہ سے بھاگنا کہاگیا ہے۔