slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 18 من سورة سُورَةُ الأَنفَالِ

Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ذَٰلِكُمْ وَأَنَّ ٱللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴾

“This [was God's purpose] -and also [to show] that God renders vain the artful schemes of those who deny the truth.”

📝 التفسير:

روایات میں آتاہے کہ جب بدر کا معرکہ گرم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دعا کرتے ہوئے یہ الفاظ نکلے يَا رَبُّ إِنْ تَهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا (دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد3، صفحہ 79 )۔ یعنی، اے میرے رب، اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو کبھی زمین پر تیری پرستش نہ ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ میں مٹھی بھر خاک لی اور اس کو مشرکین کی طرف پھینکتے ہوئے کہاشَاهَتِ الْوُجُوهُ (مسند احمد، حدیث نمبر 2762)۔ یعنی،چهرے بگڑ جائیں۔ اس کے بعد کافروں کے لشکر کا یہ حال ہوا جیسے سب کی آنکھوں میں ریت پڑ گئی ہو۔ چنانچہ مسلمانوں نے نہایت آسانی سے جس کو چاہا قتل کیا اور جس کو چاہا گرفتار کرلیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اہلِ ایمان کی مدد کرتا ہے۔ ان کے دشمن خواہ کتنی ہی سازش کریں وہ ان کی سازشوں کو اپنی تدبیروں سے بے اثر کردیتا ہے۔ وہ ان کو مغلوب کرکے اہل ایمان کو ان کے اوپر غالب کردیتاہے۔ مگر ایسا کب ہوتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ اہلِ ایمان اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ میں اس طرح ملا دیں کہ خدا کی منشا اور اہلِ ایمان کی منشا دونوں ایک ہو جائے۔ جب بندہ اس طرح اپنے آپ کو خدا کے مطابق کرلیتاہے تو جو کچھ خدا کا ہے وہ اس کا ہو جاتا ہے کیوں کہ جو کچھ اس کا ہے وہ خدا کو دے چکا ہوتاہے۔ بد رکے ليے روانگی سے پہلے مکہ کے سردار بیت اللہ گئے اور کعبہ کے پردہ کو پکڑ کر یہ دعا کی خدایا، اس کی مدد کر جو دونوں لشکروں میں سب سے اعلیٰ ہو، جو دونوں گروہوں میں سب سے معزز ہو، جو دونوں قبیلوں میں سب سے بہتر ہو (اللَّهُمَّ انْصُرْ أَعْلَى الْجُنْدَيْنِ، وَأَكْرَمَ الْفِئَتَيْنِ، وَخَيْرَ الْقَبِيلَتَيْنِ )تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 33 ۔ بد رکی لڑائی میں سرداران مکہ کو کامل شکست اور اہلِ ایمان کو کامل فتح ہوئی۔ اس طرح خود سرداران مکہ کے معیار کے مطابق یہ ثابت ہوگیا کہ خدا کے نزیک اعلیٰ واشرف گروہ وہ نہیں ہیں بلکہ اہلِ اسلام ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ جو لوگ ایسا کریں ان کے ليے آخرت میں سخت ترین عذاب ہے اور اسی کے ساتھ دنیا میں بھی۔ ’’دونوں میں جو سب سے اعلیٰ اور سب سے اشرف ہو اس کو فتح دے‘‘— یہ بظاہر دعا تھی مگر حقیقۃً وہ اپنے حق میں پُرفخر اعتماد کا اظہار تھا۔ اس کے پیچھے ان کی یہ نفسیات کام کررہی تھی کہ ہم کعبہ کے پاسبان ہیں۔ ہم ابراہیم واسماعیل سے نسبت رکھنے والے ہیں۔ جب ہمارے ساتھ اتنی بڑی فضیلتیں جمع ہیں توجیت بہر حال ہماری ہونی چاہیے۔ مگر خدا کے یہاں ذاتی عمل کی قیمت ہے، نہ کہ خارجی انتسابات کی۔ خارجی انتساب خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو آدمی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔