slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 25 من سورة سُورَةُ الأَنفَالِ

Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَٱتَّقُوا۟ فِتْنَةًۭ لَّا تُصِيبَنَّ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ مِنكُمْ خَآصَّةًۭ ۖ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴾

“And beware of that temptation to evil which does not befall only those among you who are bent on denying the truth, to the exclusion of others; and know that God is severe in retribution.”

📝 التفسير:

’’زندگی کی پکار‘‘ سے مراد یہاں جہاد کی پکار ہے۔ یعنی حق کو دوسروں تک پہنچانے کی جدوجہد۔ یہ جدوجہد ابتداء ً زبان وقلم کے ذریعہ تلقین کی صورت میں شروع ہوتی ہے۔ مگر مدعو کا مخالفانہ رد عمل اس کو مختلف مراحل تک پہنچا دیتاہے، حتی کہ ہجرت اور جنگ تک بھی۔ آدمی انفرادی سطح پر اپنے خیال کے مطابق ایک دینی زندگی بناتا ہے۔ اس زندگی کو وہ اپنے حالات سے اس طرح مطابق کرلیتاہے کہ وہ اس کو عافیت کا جزیرہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوتاہے کہ اگر وہ دوسروں کی اصلاح کے ليے اٹھتاتو اس کا بنا بنایا آشیانہ اجڑ جائے گا۔ اس کی لگی بندھی زندگی بے ترتیب ہو کر رہ جائے گی۔ اس کے وقت اور اس کے مال کا وہ نظام باقی نہ رہے گا، جو اس نے اپنے ذاتی تقاضوں کے تحت بنا رکھا ہے۔ اس قسم کے اندیشے اس کے ليے دعوت واصلاح کی جدوجہد میں نکلنے اور اس کی راه میں جان ومال پیش کرنے کے ليے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مگر یہ سراسر نادانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی جس عافیت کدہ کو اپنے ليے زندگی سمجھ رہا ہے، وہ اس کا قبرستان ہے۔ اور جس قربانی میں اس کو اپنی موت نظر آتی ہے اسی میں اس کی زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔ دعوت واصلاح کا عمل، بشرطیکہ وہ آخرت کے ليے ہو، نہ کہ دنیوی مقاصد کے ليے، انتہائی اہم عمل ہے۔ وہ آدمی کے مُردہ دین کو زندہ دین بناتا ہے۔ وہ اعلیٰ ترین سطح پر انسان کو خدا سے جوڑتاہے۔ وہ ان قیمتی دینی تجربات سے آدمی کو آشنا کرتاہے جو انفرادی خول میں رہ کر کبھی حاصل نہیں ہوتے۔ خدا کی طرف سے اتنی اہم پکار کو سن کر جو لوگ اس کے بارے میں بے توجہ رہیں، وہ یہ خطرہ مول لے رهے ہیں کہ ان کے اور حق کے درمیان ایک نفسیاتی آڑ کھڑی ہوجائے۔ ان کی یہ فطری صلاحیت ہمیشہ کے ليے کُند ہوجائے کہ وہ حق کی پکار سنیں اور اس کی طرف دوڑ کر اپنے رب کو پالیں۔ انسان کی زندگی ایک سماجی زندگی ہے۔ کوئی شخص اس کے اندر اپنا انفرادی جزیرہ بنا کر نہیں رہ سکتا۔ اگر ایک شخص ذاتی دین داری پر قانع ہے تو وہ ہر وقت اس اندیشہ میں ہے کہ اجتماعی بگاڑ کے نتیجہ میں کوئی عمومی آگ پھیلے اور وہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آجائے۔ اصلاحی جدوجہد اصلاح کے ساتھ برأت بھی ہے۔ اگر آدمی اپنی برأت پیش کرنے میں ناکام رہے تو خدا اس کے معاملہ کو کیوں دوسروں سے الگ کرے گا۔ کوئی برائی ہمیشہ چھوٹی سطح سے شروع ہوتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے بڑی بن جاتی ہے۔ اگر ایسا ہو کہ برائی جب اپنی ابتدائی حالت میں ہو اسی وقت کچھ لوگ اس کے خلاف اٹھ جائیں تو وہ آسانی کے ساتھ اسے کچل دیں گے۔ لیکن جب برائی پھیل چکی ہو تو اس کی جڑیں اتنی گہری ہوجاتی ہیں کہ پھر اس کو ختم کرنا ممکن نہیں رہتا۔