slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 29 من سورة سُورَةُ الأَنفَالِ

Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تَتَّقُوا۟ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًۭا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ ﴾

“O you who have attained to faith! If you remain conscious of God. He will endow you with a standard by which to discern the true from the false, and will efface your bad deeds, and will forgive you your sins: for God is limitless in His great bounty.”

📝 التفسير:

فرقان کے معنی ہیں فرق کرنے والی چیز۔ یہاں فرقان سے مراد حق وباطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت ہے۔ آدمی اگر اللہ سے ڈرے، وہ وہی کرے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس سے بچے جس سے اللہ نے منع کیا ہے تو اس کو اس بات کی توفیق ملتی ہے کہ وہ حق اور باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھ سکے (مَنِ اتَّقَى اللهَ بِفِعْلِ أَوَامِرِهِ وَتَرْكِ زَوَاجِرِهِ، وُفِّقَ لِمَعْرِفَةِ الْحَقِّ مِنَ الْبَاطِلِ )تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 43 ۔ انسانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے والي سب سے بڑی چیز ڈر ہے۔ جس معاملہ میں انسان کے اندر ڈر کی نفسیات پیدا ہوجائے اس معاملہ میں وہ حد درجہ حقیقت پسند بن جاتاہے۔ ڈر کی نفسیات اس کے ذہن کے تمام پردوں كو اس طرح هٹا ديتي هےكه اس بارے ميں وه هر قسم كي غفلت يا غلط فهمي سے بلند هو كر صحیح ترین رائے قائم کرسکے۔ یہی معاملہ اس بندۂ خدا کے ساتھ پیش آتاہے جس کو رب العالمین کے ساتھ تقویٰ (ڈر) کاتعلق پیداہوگیا ہو۔ یہ فرقان تقریباً وہی چیز ہے جس کو معرفت یا بصیرت کہاجاتاہے۔ بصیرت کسی آدمی میں وہ اندرونی روشنی پیداکرتی ہے کہ وہ ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی معاملہ میںاپنے کو اتنا زیادہ شامل کرتا ہے کہ وہ اس کی پروا کرنے لگے۔ وہ اس کے بارے میں اندیشہ ناک رہتاہو تو اس کے بعد اس کے اندر ایک خاص طرح کی حساسيت پیدا ہوتی ہے جو اس کو اس معاملہ کے موافق اور مخالف کی پہچان کرادیتی ہے۔ یہ فرقانی معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتاہے خواہ وہ ایک مذہبی آدمی ہو یا ایک تاجر اور ڈاکٹر اور انجینئر۔ کوئی بھی آدمی جب اپنے کام سے تقویٰ (کھٹک) کی حد تک اپنے کو وابستہ کرتاہے تو اس کو اس معاملہ کی ایسی معرفت ہوجاتی ہے کہ ادھر اُدھر کے مغالطوں میںاُلجھے بغیر وہ اس کی حقیقت تک پہنچ جائے۔ کسی آدمی کے اندر یہ خدائی بصیرت (فرقان) پیدا ہونا اس بات کی سب سے بڑی ضمانت ہے کہ وہ برائیوں سے بچے، وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرے اور بالآخر خداکے فضل کا مستحق بن جائے۔ یہ فرقان (حق وباطل کی نفسیاتی تمیز) پیدا ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ کو حق کے ساتھ اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہے کہ اس میں اور حق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ وہ اور حق دونوں ایک دوسرے کا مُثني (counterpart) بن چکے ہیں۔ اس کے بعد اس کا بچایا جانا اتنا ہی ضروری ہو جاتاہے جتنا حق کو بچایا جانا۔ ایسے لوگ براہِ راست خدا کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ اب ان کے خلاف تدبیریں کرنا خود حق کے خلاف تدبیریں کرنا بن جاتا ہے۔ اور خدا کے خلاف تدبیر کرنے والا ہمیشہ ناکام رہتا ہے خواہ اس نے کتنی ہی بڑی تدبیر کر رکھی ہو۔