slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 34 من سورة سُورَةُ الأَنفَالِ

Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ ٱللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ وَمَا كَانُوٓا۟ أَوْلِيَآءَهُۥٓ ۚ إِنْ أَوْلِيَآؤُهُۥٓ إِلَّا ٱلْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾

“But what have they [now] in their favour that God should not chastise them-seeing that they bar [the believers] from the Inviolable House of Worship, although they are not its [rightful] guardians? None but the God-conscious can be its guardians: but of this most of these [evildoers] are unaware;”

📝 التفسير:

ہم بھی ایسا کلام بنا سکتے ہیں، ہم ناحق پر ہیں تو ہمارے اوپر پتھر کیوں نہیں برستا — یہ سب گھمنڈ کی باتیں ہیں۔ آدمی جب دنیا میں اپنے کو محفوظ حیثیت میں پاتاہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیداہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ بالکل درست ہے۔ اس کا یہ احساس اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلواتا ہے جو عام حالات میں کسی کی زبان سے نہیں نکلتے۔ اس قسم کے لوگوں میں یہ دلیری خدا کے قانونِ مہلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا یقینا ًمجرموں کو سزا دیتا ہے مگر خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ آدمی کو ہمیشہ اس وقت پکڑتاہے جب کہ اس کے اوپر حق وباطل کی وضاحت کا کام مکمل طورپر انجام دے دیا گیا ہو۔ اس کام کی تکمیل سے پہلے کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ نیز یہ کہ دعوتی عمل کے درمیان اگرا یک ایک دو دو آدمی اس سے متاثر ہوکر اپنی اصلاح کررہے ہوں تب بھی سزا کا نزول رکا رہتا ہے تاکہ یہ عمل اس حد تک مکمل ہوجائے کہ جتنی سعید روحیں ہیں سب اس سے باہر آچکی ہوں۔ امتوں میں بگاڑ آتاہے تو ایسانہیں ہوتاکہ ان کے درمیان سے دین کی صورتیں مٹ جائیں۔ بگاڑ کے زمانہ میں ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ خوفِ خدا والا دین جاتا رہتا ہے اور اس کی جگہ دھوم والا دین آجاتاہے۔ اب قوم کے پاس عمل نہیں ہوتا بلکہ ماضی کی شخصیتیں اور ان کے نام پر قائم شدہ گدّیاں ہوتی ہیں۔ لوگ ان شخصیتوں اور ان گدیوں سے وابستہ ہوکر سمجھتے ہیں کہ ان کو وہی عظمت حاصل ہوگئی ہے جو تاریخی اسباب سے خود ان شخصیتوں اور گدیوں کو حاصل ہے۔ لوگ اندر سے خالی ہوتے ہیں مگر بڑے بڑے ناموں پر نمائشی اعمال کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا دینی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ مکہ کے لوگ اسی قسم کی نفسیات میں مبتلا تھے۔ ان کو فخر تھا کہ وہ بیت اللہ کے وارث ہیں۔ ابراہیم واسماعیل جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی امت ہیں۔ ان کو کعبہ کے خادم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب ان کو اتنے دینی اعزازات حاصل ہیں اور وہ اتنے بڑے بڑے دینی کارنامے انجام دے رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ خدا ان کو جہنم میں ڈال دے۔