slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 39 من سورة سُورَةُ الأَنفَالِ

Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَقَٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌۭ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ كُلُّهُۥ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ ٱنتَهَوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴾

“And fight against them until there is no more oppression and all worship is devoted to God alone. And if they desist-behold, God sees all that they do;”

📝 التفسير:

اسلام کا اصول یہ ہے کہ جو شخص جیسا عمل کرے اس کے مطابق وہ اپنا بدلہ پائے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اس عام اصول میں اپنی رحمت سے ایک خاص استثناء رکھا ہے۔ وہ یہ کہ آدمی جب ’’توبہ‘‘ کرلے تو اس کے بعد اس کے پچھلے اعمال پر اس کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ ایک شخص خدا سے دوری کی زندگی گزار رہا تھا۔ پھر اس کو ہدایت کی روشنی ملی۔ اس نے سچا مومن بن کر صالح زندگی اختیار کرلی تو اس سے پہلے اس نے جو برائیاں کی تھیں وہ سب معاف کردی جائیںگی۔ اس کے پچھلے گناہوں کی بنا پر اس کو نہیں پکڑا جائے گا۔ ٹھیک یہی اصول اجتماعی اور سیاسی معاملہ میں بھی ہے۔ کسی مقام پر حق اور باطل کی کش مکش برپا ہوتی ہے، آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے، اس ٹکراؤ کے دوران باطل کے علم بردار حق کے ليے اٹھنے والوں پر ظلم کرتے ہیں۔ بالآخر جنگ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حق پرست غالباً آجاتے ہیں اور ناحق کے علم بردار مغلوب ہو کر زیر کرديے جاتے ہیں۔ اس معاملہ میں بھی اسلام کا اصول وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ یعنی فتح کے بعد پچھلے ظلم وستم پر کسی کو سزا نہیں دی جائے گی۔ البتہ جو شخص فتح کے بعد کوئی ایسی حرکت کرے جو اسلامی قانون میں جرم قرار دی گئی ہو تو ضرور کارروائی کے بعد اس کو وہ سزا ملے گی جو شریعت نے ایسے ایک مجرم کے ليے مقرر کی ہے۔ فتنہ کا مطلب ستانا (persecution) ہے۔ قدیم زمانہ میں سرداری اور حکومت شرک کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی۔ آج حکومت کرنے والے عوام کے نمائندہ بن کر حکومت کرتے ہیں۔ ماضی میں خدا یا خدا کے شریکوں کا نمائندہ بن کر لوگ حکومت کیا کرتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں شرک کو قدیم سماج میں با اقتدار حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اہل شرک اہل توحید کو ستاتے رہتے تھے۔ اللہ نے اپنے رسول اور آپ کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ شرک اور اقتدار کے باہمی تعلق کو توڑ دو تاکہ مشرکین اہل توحید کو ستانے کی طاقت سے محروم ہوجائیں۔ چنانچہ آپ کے ذریعہ جو عالمی انقلاب آیا اس نے ہمیشہ کے ليے شرک کا رشتہ سیاسی نظام سے ختم کردیا۔ اب شرک ساری دنیا میں صرف ایک مذہبی عقیدہ ہے، نہ کہ وہ سیاسی نظریہ جس کی بنیاد پر حکومتوں کا قیام عمل میںآتا ہے۔ تاہم جہاں تک عرب کا تعلق ہے وہاں یہ مقصد دہری صورت میں مطلوب تھا، یہاں شرک اور مشرکین دونوں کو ختم کرنا تھا تاکہ حرمین کے علاقہ کو ابدی طورپر خالص توحید کا مرکز بنا دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جزیرہ عرب سے مشرکین کو نکال دو۔ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شر وع ہوا اور حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔