Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِذْ أَنتُم بِٱلْعُدْوَةِ ٱلدُّنْيَا وَهُم بِٱلْعُدْوَةِ ٱلْقُصْوَىٰ وَٱلرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَٱخْتَلَفْتُمْ فِى ٱلْمِيعَٰدِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِىَ ٱللَّهُ أَمْرًۭا كَانَ مَفْعُولًۭا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنۢ بَيِّنَةٍۢ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَىَّ عَنۢ بَيِّنَةٍۢ ۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾
“[Remember that day] when you were at the near end of the valley [of Badr], and they were at its farthest end, while the caravan was below you. And if you had known that a battle was to take place, you would indeed have refused to accept the challenge: but [the battle was brought about none the less,] so that God might accomplish a thing [which He willed] to be done, [and] that he who would perish might perish in clear evidence of the truth, and that he who would remain alive might live in clear evidence of the truth. And, behold, God is indeed all-hearing, all-knowing.”
اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا لوگوں پر پوری طرح کھل جائے۔ یہ کام ابتداء ً دعوت کے ذریعہ دلائل کی زبان میں ہوتا ہے۔ داعی طاقت ور اور عام فہم دلائل کے ذریعہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کرتاہے۔ احقاق حق اور ابطال باطل کے اس کام کی تکمیل بالآخر غیر معمولی واقعات سے کی جاتی ہے، خواہ یہ غیر معمولی واقعہ کوئی آسمانی معجزہ ہو یا زمیني غلبہ۔ بدر کی جنگ میں یہی دوسرا واقعہ پیش آیا۔ قریش مکہ سے اس ليے نکلے کہ شام سے آنے والے اپنے تجارتی قافلہ کی مدد کریں۔ مسلمان مدینہ سے اس ليے نکلے کہ تجارتی قافلہ پر حملہ کریں۔ تجارتی قافلہ معروف راستہ کو چھوڑ کر سمندری ساحل سے گزرا اور بچ گیا۔ اور یہ دونوں فریق بدر پہنچ کر آمنے سامنے ہوگئے۔ یہ اللہ کی تدبیر سے ہوا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر اہل ایمان کو فتح دی گئی۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن کی صداقت لوگوں پر پوری طرح کھل گئی۔ جو لوگ سچے طالب تھے ان پر آخری حد تک یہ بات واضح ہوگئی کہ یہی حق ہے۔ اور جو لوگ اپنے اندر کسی قسم کی نفسیاتی پیچیدگی ليے ہوئے تھے انھوں نے اس کے بعد بھی اپنے مسلک پر قائم رہ کر ثابت کردیا کہ وہ اسی قابل ہیں کہ انھیں ہلاک کردیا جائے۔ بدر میں قریش کی فوج کی تعداد زیادہ تھی۔ اگر مسلمان ان کی اصل تعداد کو دیکھتے تو کوئی کہتا کہ لڑو اور کوئی کہتا کہ نہ لڑو۔ اس طرح اختلاف پیدا ہوجاتا اور اصل کام ہونے سے رہ جاتا۔ خدا نے حسب موقع کبھی تعداد گھٹا کر دکھائی اور کبھی بڑھا کر۔ اس طرح ممکن ہوسکا کہ تمام مسلمان بے جگری کے ساتھ لڑیں۔ خدا کو جب کوئی کام مطلوب ہوتا ہے تو وہ اسی طرح اپنی مدد بھیج کر اس کام کی تکمیل کا سامان کردیتا ہے۔ عمل کے دوران جو حالات پیش آتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں اور یہ دیکھنے کے ليے ہوتے ہیں کہ کس شخص نے اپنے حالات کے اندر کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔