Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّٰمٍۢ لِّلْعَبِيدِ ﴾
“in return for what your own hands have wrought - for, never does God do the least wrong to His creatures!"”
نعمت کا انحصار حالتِ استحقاق نعمت پر ہے۔ قومی سطح پر کسی کو جو نعمتیں ملتی ہیں وہ ہمیشہ اس استحقاق کے بقدر ہوتی ہیں جو نفسی حالت کے اعتبار سے اس کے یہاں پایا جاتا ہے۔ یہ ’’نفس‘‘ چونکہ فرد کے اندر ہوتاہے اس ليے اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعی انعامات کا انحصار انفرادی حالات پر ہے۔ افراد کی سطح پر قوم جس درجہ میں ہو اسی کے بقدر اس کو اجتماعی انعامات ديے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی گروہ اگر خدا کے اجتماعی انعامات کو پانا چاہتاہے تو اس کو اپنے افراد کی نفسی اصلاح پر اپنی طاقت صرف کرنا چاہيے۔ اسی طرح کوئی قوم اگراپنے کو اس حال میں دیکھے کہ اس سے اجتماعی نعمتیں چھن گئی ہیں تو اس کو خود نعمتوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنے افراد كي اصلاح کے پیچھے دوڑنا چاہیے۔ کیوں کہ افراد ہی کے بگڑنے سے اس کی نعمتیں چھنی ہیں اور افراد ہی کے بننے سے دوبارہ وہ اسے مل سکتی ہیں۔ جب کوئی قوم عدل کے بجائے ظلم اور تواضع کے بجائے سرکشی کا رويہ اختیار کرتی ہے تو خدا کی طرف سے اس کے سامنے سچائی کا اعلان کرایا جاتاہے تاکہ وہ متنبہ ہوجائے۔ یہ اعلان کمالِ وضاحت کے اعتبار سے خدا کی ایک نشانی ہوتاہے۔ اس کو ماننا خدا کو ماننا ہوتا ہے اور اس کو نہ ماننا خدا کو نہ ماننا۔ خدا کی دعوت جب آیت (نشانی) کی حد تک برہنہ ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے پھر بھی وہ اس کا انکار کریں تو اس کے بعد لازماً وہ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اس سزا کا آغاز اگر چہ دنیا ہی سے ہوجاتاہے۔ تاہم دنیا کی سزا اس سزا کے مقابلہ میں بہت کم ہے جو موت کے بعد آدمی کے سامنے آنے والی ہے۔ فرشتوں کی مار، ساری مخلوق کے سامنے رسوائی اور جہنم کی آگ میں جلنا ۔ یہ سب اتنے ہولناک مراحل ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان جب ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتاہے تو اولاً اس کے ليے تنبیہات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر وہ ان سے سبق نہ لے تو بالآخر وہ خدا کے فیصلہ کن عذاب کی زد میں آجاتا ہے۔