slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 55 من سورة سُورَةُ الأَنفَالِ

Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ إِنَّ شَرَّ ٱلدَّوَآبِّ عِندَ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾

“Verily, the vilest creatures in the sight of God are those who are bent on denying the truth and therefore do not believe.”

📝 التفسير:

مدینہ کے یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاانکار کرکے خدا کی نظر میں مجرم ہوچکے تھے۔ اس جرم پر مزید اضافہ ان کی بد عہدی تھی۔ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود مدینہ کے درمیان یہ تحریری معاہدہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے معاملہ میں غیر جانب دار رہیں گے۔ مگر یہود خفیہ طورپر آپ کے دشمنوں (مشرکین) سے مل کر آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ یہ کفر پر بد عہدی کا اضافہ تھا۔ یہ انکار کے ساتھ کمینگی کو جمع کرنا تھا۔ ایسے لوگوں کے ليے آخرت میں ہولناک عذاب ہے اور دنیا میں یہ حکم ہے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ان کی شرارتوں کا خاتمہ ہو اور ان کے ارادے پست ہوجائیں۔ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کا عہد ہو اور مسلمان ان کی طرف سے بد عہدی کے اندیشہ کی بنا پر اس عہد کو توڑنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ پہلے انھیں اس کی اطلاع دیں تاکہ دونوں پیشگی طورپر یہ جان لیں کہ اب دونوں کے درمیان عہد کی حالت باقی نہیں رہی۔ امیر معاویہ اور رومی حکمراں میں ایک بار میعادی معاہدہ تھا۔ معاہدہ کی مدت قریب آئی تو امیر معاویہ نے اپنی فوجوں کو خاموشی کے ساتھ روم کی سرحد پر جمع کرنا شروع کیا تاکہ معاہدہ کی تاریخ ختم ہوتے ہی اگلی صبح کو اچانک رومی علاقہ پر حملہ کردیا جائے۔ اس وقت ایک صحابی حضرت عمرو بن عنبسہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ وہ بآواز بلند کہہ رہے تھے اللہ اکبر اللہ اکبر وفاءٌ لا غدرٌ (اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد کو پورا کرو، عہد کو نہ توڑو)، انھوں نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائیمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَحِلَّنَّ عُقْدَةً وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ (مسند احمد، حدیث نمبر 17015)۔يعني، جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو کوئی گرہ نہ کھولی جائے اور نہ باندھی جائے یہاں تک کہ معاہدہ کی مدت پوری ہوجائے یا برابری کے ساتھ عہد اس کی طرف پھینک دیا جائے۔ دوسری صورت وہ ہے جب کہ صرف اندیشہ کی بات نہ ہو بلکہ فریق ثانی کی طرف سے عملاً معاہدہ کی واضح خلاف ورزی ہو چکی ہو۔ ایسی صورت میں اجازت ہے کہ فریق ثانی کو مطلع كيے بغیر جوابی کارروائی کی جائے۔ غزوۂ مکہ اسی کی مثال ہے۔ قریش نے آپ کے حلیف (بنو خزاعہ) کے خلاف بنو بکر کی جارحانہ کارروائی میں شریک ہو کر معاہدۂ حدیبیہ کی یک طرفہ خلاف ورزی کی تو آپ نے قریش کو پیشگی اطلاع ديے بغیر ان کے خلاف خاموش کارروائی فرمائی۔