Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يُجَٰدِلُونَكَ فِى ٱلْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى ٱلْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ ﴾
“[so, too,] they would argue with thee about the truth [itself] after it had become manifest - just as if they were being driven towards death and beheld it with their very eyes.”
شعبان 2 ھ میں معلوم ہوا کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا ہے۔ اس قافلہ کے ساتھ تقریباً 50 ہزار اشرفی کا سامان تھا۔ اس کا راستہ مدینہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے قافلۂ تجارت پر حملہ کریں۔ چنانچہ قافلہ کے سردار ابو سفیان بن حرب نے تیز رفتار اونٹنی کے ذریعہ مکہ والوں کے پاس یہ خبر بھیجی کہ مدد کے ليے دوڑو ورنہ مسلمان تجارتی قافلہ کو لوٹ لیں گے۔ مکہ میں اس خبر سے بڑا جوش پیدا ہوگیا۔ چنانچہ 950 سوار جن میں 600 زرہ پوش تھے مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام خبریں مل رہی تھیں۔ اب مدینہ کے مسلمان دو گروہوں کے درمیان تھے۔ ایک شام سے آنے والا تجارتی قافلہ۔ دوسرا مکہ سے مدینہ کی طرف بڑھنے والا جنگی لشکر۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ تجارتی قافلہ کی طرف بڑھا جائے۔ اس قافلہ کے ساتھ بمشکل 40 محافظ تھے۔ اس کو به آسانی مغلوب کرکے اس کے سامان پر قبضہ کیا جاسکتاتھا۔ مگر خدا کا منصوبہ دوسرا تھا۔ خدا کو دراصل منکرین حق کا زور توڑنا تھا، نہ کہ کچھ اقتصادی فائدہ حاصل کرنا۔ خدا نے مخصوص حالات پیدا کرکے ایسا کیا کہ تمام مخالف سرداروں کو مکہ سے نکالا اور ان کو مدینہ سے 20 میل کے فاصلہ پر بدر کے مقام پر پہنچا دیا تاکہ مسلمانوں کو ان سے ٹکرا کر ہمیشہ کے ليے ان کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ کے رسول نے جب مسلمانوں کو خدا کے اس منصوبہ سے مطلع کیا تو سب کے سب متفق ہو کر بدر کی طرف بڑھے۔ ان کی تعداد اگر چہ صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار کم تھے۔ مگر اللہ نے ان کی خصوصی مدد فرمائی۔ انھوں نے قریش کے لشکر کو بری طرح شکست دی۔ ان کے ستر سردار قتل ہوئے اور ستر گرفتار کر ليے گئے۔ بد رکا میدان کفر کے مقابلہ میں اسلام کی فتح کا میدان بن گیا— جب بھی ایسا ہو کہ ایک طرف مادی فائدہ ہو اور دوسری طرف دینی فائدہ تو یہ تقسیم خود اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کی مرضی دینی فائدہ کی طرف ہے، نہ کہ مادی فائدہ کی طرف۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ کبھی معاشی مفاد حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ ہمیشہ باطل کا زور توڑنا ہوتاہے۔ خواہ وہ نظریاتی طاقت کے ذریعہ ہو یا حالات کے اعتبار سے مادی طاقت کے ذریعہ۔