Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ مَا كَانَ لِنَبِىٍّ أَن يَكُونَ لَهُۥٓ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ ٱلدُّنْيَا وَٱللَّهُ يُرِيدُ ٱلْءَاخِرَةَ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴾
“IT DOES NOT behove a prophet to keep captives unless he has battled strenuously on earth. You may desire the fleeting gains of this world-but God desires [for you the good of] the life to come: and God is almighty, wise.”
بدر کی لڑائی میں مسلمانوں نے ستر بڑے بڑے مشرکینِ مکہ کو قتل کیا۔ اس کے بعد جب ان کے پاؤں اکھڑنے لگے تو ان کے 70آدمیوں کو گرفتار کرلیا۔ ان گرفتار ہونے والوں میں اکثر سردار تھے۔ جنگ کے بعد مشورہ ہوا کہ ان قيدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ صحابہ کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ اس وقت اسلام دشمنوں نے مسلسل حالت جنگ برپا کر رکھی تھی۔ مگر مسلمانوں کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے سامانِ جنگ کی بہت کمی تھی۔ یہ خیال کیاگیا کہ فدیہ سے جو رقم ملے گی اس سے سامانِ جنگ خریدا جاسکتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت سعد بن معاذ اس رائے کے خلاف تھے۔ حضرت عمر نے کہا اے خدا کے رسول یہ قیدی کفر کے امام اور مشرکین کے سردار ہیں۔ یعنی اس وقت دشمنوں کی اصل طاقت ہماری مٹھی میں آگئی ہے، ان کو قتل کرکے اس مسئلہ کا ہمیشہ کے ليے خاتمہ کردیا جائے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی رائے پر عمل فرمایا۔ بعد کو جب وہ آیتیں اتریں جن میں جنگ پر تبصرہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے فدیہ کی رقم کو جائز ٹھہراتے ہوئے اس روش پر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا اگرچہ بظاہر رحمت وشفقت کا معاملہ تھا۔ مگر وہ اللہ کے دور رس منصوبہ کے مطابق نہ تھا۔ اللہ کا اصل منصوبہ کفروشرک کی جڑ اکھاڑنا تھا۔ اس مقصد کے ليے اللہ تعالیٰ نے قریش کے تمام لیڈروں کو (ابولہب اور ابوسفیان کو چھوڑ کر) بدر کے میدان میں جمع کردیا اور ایسے حالات پیدا كيے کہ وہ پوری طرح مسلمانوں کے قابو میںآگئے۔ اگر ان لیڈروں کو اس وقت ختم کردیا جاتا تو کفر وشرک کی مزاحمت بدر کے میدان میں پوری طرح دفن ہو جاتی۔ مگر لیڈروں کو چھوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ منظم ہو کر دوبارہ اپنی مزاحمت کی تحریک جاری رکھنے کے قابل ہوگئے۔ یہ فیصلہ جنگی مصلحت کے خلاف تھا۔ وہ مسلمانوں کے ليے عذاب عظیم (سخت مصیبتوں) کا باعث بن جاتا۔ یہ لیڈر اپنے عوام کو ساتھ لے کر اسلام کے سارے معاملہ کو تہس نہس کردیتے۔ مگر اللہ نے آخری رسول اورآپ کے اصحاب کے ليے پہلے سے مقدر کردیا تھا کہ وہ لازماً غالب رہیں گے، ان کو زیر کرنے میں کوئی کامیاب نہ ہوسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی تدبیرمیں اس کوتاہی کے باوجود قریش اہل ایمان کے اوپر غالب نہ آسکے۔ اور بالآخر وہی ہوا جس کا ہونا پہلے سے خدا کے یہاں لکھا جاچکا تھا، یعنی مسلمانوں کی فتح اور اسلام کا غلبہ۔