Al-Anfaal • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِن يُرِيدُوا۟ خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا۟ ٱللَّهَ مِن قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾
“And should they but seek to play false with thee -well, they were false to God [Himself] ere this: but He gave [the believers] mastery over them. And God is all-knowing, wise.”
بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا مسلمانوں کے ليے ایک جنگي غلطی تھی۔ مگر خود قیدیوں کے حق میں یہ ایک نئی زندگی فراہم کرنے کے ہم معنیٰ تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ جو اپنی مخالفتِ حق کے نتیجہ میں ہلاکت کے مستحق ہوچکے تھے ان کو ایک بار اور موقع مل گیا کہ وہ اسلام کی دعوت اور اس کے مقابلہ میں اپنی بے جا روش پر دوبارہ غور کرسکیں۔ اس مہلت نے ان کے ليے اپنی اصلاح کا نیا دروازہ کھول دیا۔ اب ایک صورت یہ تھی کہ ان قیدیوں کے دل میں شکست کی بنا پر انتقام کی آگ بھڑکے۔ فدیہ دینے کی وجہ سے ان کو جو ذلت اور نقصان ہوا ہے اس کا بدلہ لینے کے ليے وہ بے چین ہوجائیں۔ ایسی صورت میں وہ پھر اسی غلطی کو دہرائیں گے جس کے نتیجے میں وہ خدا کی پکڑ کے مستحق بن گئے تھے۔ وہ اپنی قوتوں کو اسلام کی مخالفت میں صرف کریںگے، جس کا انجام دنیا میں ہلاکت ہے اور آخرت میں عذاب۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ بدر کے میدان میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعہ پر غور کریں کہ مسلمانوں کو کم تر اسباب کے باوجود اتنی کھلی ہوئی فتح کیوں نصیب ہوئی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا مسلمانوں کے دین کے ساتھ ہے، نہ کہ قریش کے دین کے ساتھ۔ یہ دوسرا ذہن اگر پیدا ہوجائے تو وہ ان کو آمادہ کرے گا کہ وہ اپنی سابقہ روش کو بدلیں اور جس دین کو پہلے اختیار نہ کرسکے، اس کو اب سے اختیار کرلیں۔ اور اس طرح دنیا اور آخرت میں خداکے انعام کے مستحق بنیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قریش کے لوگوں میں ایک تعداد ایسی نکلی جن کے دل میں مذکورہ سوال جاگ اٹھا اور جلد یا بدیر وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ حضرت عباس بن عبد المطلب نے زمانہ قید ہی میں اسلام قبول کرلیا۔ کچھ دوسرے لوگ بعد کو اسلام کے حلقہ میں آگئے۔ یہ لوگ اگرچہ گروہی تعصب کی نظر میں ذلیل ہوئے مگر انھوں نے خدا کی نظر میں عزت حاصل کرلی۔ دنیا کا نقصان اٹھا کر وہ آخرت کے فائدہ کے مالک بن گئے۔ قیدیوں کو چھوڑنے کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ اندیشہ تھا کہ وہ اس کو احسان سمجھ کر اس کا اعتراف نہیں کریں گے بلکہ پہلے کی طرح دوبارہ سازش اور تخریب کاری کا راستہ اختیار کرکے اسلام کی راه میں رکاوٹ بن جائیں گے۔ مگر قرآن نے اس اندیشہ کو اہمیت نہ دی۔ کیوں خالص حق کے ليے جو تحریک اٹھتی ہے وہ عام طرز کی انسانی تحریک نہیں ہوتی۔ وہ ایک خدائی معاملہ ہوتاہے۔ اس کی پشت پر خود خدا ہوتا ہے اور خدا سے لڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔