At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مَسْجِدًۭا ضِرَارًۭا وَكُفْرًۭا وَتَفْرِيقًۢا بَيْنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًۭا لِّمَنْ حَارَبَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَآ إِلَّا ٱلْحُسْنَىٰ ۖ وَٱللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَٰذِبُونَ ﴾
“AND [there are hypocrites] who have established a [separate] house of worship in order to create mischief, and to promote apostasy and disunity among the believers, and to provide an outpost for all who from the outset have been warring against God and His Apostle. And they will surely swear [to you, O believers], "We had but the best of intentions!" -the while God [Himself] bears witness that they are lying.”
زندگی کی تعمیر کی دو بنیادیں ہیں ۔ ایک تقویٰ، دوسرے ظلم۔ پہلی صورت یہ ہے کہ خدا کے ڈر کی بنیاد پر زندگی کی عمارت اٹھائی جائے۔ آدمی کی تمام سرگرمیاں جس فکر کےما تحت چل رہی ہوں وہ فکر یہ ہو کہ اس کو اپنے تمام قول وفعل کا حساب ایک ایسی ہستی کو دینا ہے جو کھلے اور چھپے سے باخبر ہے ا ور ہر ایک کو اس کے حقیقی کارناموں کے مطابق جزا یا سزا دینے والا ہے۔ ایسا شخص گویا مضبوط چٹان پر اپنی عمارت کھڑی کررہا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس قسم کے اندیشہ سے خالی ہو۔ وہ دنیا میں بالکل بے قید زندگی گزارے۔ وہ کسی پابندی کو قبول كيے بغیر جو چاہے بولے اور جو چاہے کرے۔ ایسے شخص کی زندگی کی مثال اس عمارت کی سی ہے جو ایسی کھائی کے کنارے اٹھا دی گئی ہو جو بس گرنے ہی والی ہو اور اچانک ایک روز اس کا مکان اپنے مکینوں سمیت گہرے کھڈ میں گر پڑے۔ جو لوگ ظلم کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں ان کے جرائم میں سب سے زیادہ سخت جرم وہ ہے جس کی مثال مدینہ میں مسجد ضرار کی صورت میں سامنے آئی۔ اس وقت مدینہ میں دو مسجدیں تھیں ۔ ایک آبادی کے اندرمسجد نبوی۔ دوسری مضافات میں مسجد قبا۔ منافق مسلمانوں نے اس کے توڑ پر ایک تیسری مسجد تعمیر کرلی۔ اس قسم کی کارروائی بظاہراگر چہ دین کے نام پر ہوتی ہے مگر حقیقۃً اس کا مقصد ہوتا ہے اپنی قیادت اور پیشوائی کو قائم رکھنے کی خاطر دعوتِ حق کا مخالف بن جانا۔ جو لوگ اپنی خود پرستی کی وجہ سے دعوت حق کو قبول نہیں کرپاتے وہ اس کے خلاف محاذ بنا تے ہیں ، اس کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں ۔ ان کی منفی سرگرمیاں مسلمانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیتی ہیں ۔ ایسے لوگ اپنے تخریبی عمل کو دین کے نام پر کرتے ہیں ۔ حتی کہ وہ مسلّمہ دینی شخصیتوں کو اپنے اسٹیج پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظر میں انھیں اعتماد حاصل ہوجائے۔ یہ لوگ اپنی اندھی دشمنی میں بھول جاتے ہیں کہ حق کی مخالفت دراصل خدا کی مخالفت ہے جو خدا کی دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایسے لوگوں کے ليے جو چیز مقدر ہے وہ صرف یہ کہ وہ حسرت وافسوس کے ساتھ مریں اور اللہ کی رحمتوں سے ہمیشہ کے ليے محروم ہوجائیں ۔