At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ يُقَٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّۭا فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ وَٱلْقُرْءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُوا۟ بِبَيْعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعْتُم بِهِۦ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴾
“BEHOLD, God has bought of the believers their lives and their possessions, promising them paradise in return, [and so] they fight in God's cause, and slay, and are slain: a promise which in truth He has willed upon Himself in [the words of] the Torah, and the Gospel, and the Qur'an. And who could be more faithful to his covenant than God? Rejoice, then, in the bargain which you have made with Him: for this, this is the triumph supreme!”
اللہ کا مومن بننا اللہ کے ہاتھ اپنے آپ کو بیچ دینا ہے۔ بندہ اپنا مال اور اپنی زندگی اللہ کو دیتا ہے تاکہ اللہ اس کے بدلے میں اپنی جنت اسے دے دے۔ یہ دراصل حوالگی اور سپردگی کی تعبیر ہے۔ کسی بھی چیز سے حقیقی تعلق ہمیشہ حوالگی اور سپردگی کی سطح پر ہوتا ہے۔ تعلق کا یہی درجہ اللہ کے معاملہ میں بھی مطلوب ہے۔ جنت کی ابدی نعمتیں کسی کو کامل حوالگی کے بغیر نہیں مل سکتیں ۔ جب آدمی خدا کے دین کو اس طرح اختیار کرتاہے تو دین کا معاملہ اس کے لیے کوئی علیٰحدہ معاملہ نہیں رہتا۔ بلکہ وہ اس کا ذاتی معاملہ بن جاتاہے۔ اب وہی اس کی دلچسپیوں اور اس کے اندیشوں کا مرکز ہوتا ہے۔ دین اگر مال کا تقاضا کرے تو وہ اپنا مال اس کے ليے حاضر کردیتاہے۔ دین کے ليے اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو وقف کرنا پڑے تو وہ اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو اس کے ليے پیش کردیتا ہے۔ حتی کہ اگر وہ مرحلہ آجائے جب کہ اپنے وجود کو مٹا کر یا مال سے بے مال ہونے کا خطرہ مول لے کر دین میں اپنا حصہ ادا کرنا ہو تو اس سے بھی وہ دریغ نہیں کرتا۔ جو لوگ اس طرح اپنے کو اللہ کے حوالے کریں ان کے اندر کس قسم کے انفرادی اوصاف پیداہوتے ہیں ۔ ان کی حساسیت اتنی بيدار ہوجاتی ہے کہ غلطی ہوتے ہی وہ اس کو جان لیتے ہیں اور فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتے ہیں ۔ وہ اللہ کے لیے بچھ جانے والے ہوتے ہیں ۔ وہ خدا کی عظمتوں کو اس طرح پالیتے ہیں کہ ان کے قلب اور زبان سے بے اختیار اس کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ وہ سائح ہوجاتے ہیں ، یعنی انسانی دنیا سے نکل کر خدائی دنیا میں جانا ان کے لیے زیادہ سکون کا باعث ہوتاہے۔ خدا کے آگے جھکنا ان کے ليے محبوب چیز بن جاتا ہے۔ جو بھی ان کے ربط میں آتا ہے اس کو بھلائی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنے سامنے کسی کو برائی کرتے دیکھتے ہیں تو اس کو روکنے کے ليے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ وہ خدا کی حد بندیوں کے معاملہ میں حد درجہ چوکنا ہوجاتے ہیں ، وہ حدود اللہ کے اس طرح نگہبان بن جاتے ہیں جس طرح باغباں اپنے باغ کا— یہی وہ لوگ ہیں جن کے ليے خدائی انعامات کی خوش خبری ہے۔ خدا کی جنت تمام قیمتی چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ مگر خدا کی جنت ایک موعود انعام ہے، وہ نقد انعام نہیں ۔ جنت کی اسی موجل نوعیت کا یہ نتیجہ ہے کہ لوگ جنت کو چھوڑ کر حقیر فائدوں کی طرف بھاگے جارہے ہیں ۔