slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 116 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ إِنَّ ٱللَّهَ لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۚ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍۢ ﴾

“Verily, God's alone is the dominion over the heavens and the earth; He [alone] grants life and deals death; and there is none besides God who could protect you or bring you succour.”

📝 التفسير:

ایک شخص کافر ومشرک ہو اور اس کے سامنے اتمام حجت کی حد تک دین کی دعوت آجائے، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو خداکے قانون کے مطابق وہ جہنمی ہوجاتاہے۔ ایسے شخص کے ليے اس کے بعد نجات کی دعا کرنا گویا ایمان کو بے وقعت بنانا اور خدائی انصاف کی تردید کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسی دعا سے منع کردیاگیا۔ تاہم آیت میں مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَکا لفظ بتاتا ہے کہ اس حکم کا تعلق زمانہ رسالت کے مشرکین سے ہے جن کے بارے میں وحی کے ذریعہ بتا دیاگیا تھا کہ وہ جہنمی ہیں ۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور ان کے حق میں مغفرت کی دعا نہ کریں (التوبہ، 9:84 ) یہ بات مدینہ کے منافقوں کو بہت ناگوار ہوئی۔ انھوں نے اس کو لے کر آپ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ وہ کہتے کہ یہ نبی تو نبی رحمت ہیں اور اپنے کو ابراہیم کا پیرو بتاتے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بھائیوں اور اپنے رشتہ داروں کے ليے استغفار سے روکتے ہیں ۔ حالاں کہ ابراہیم کا حال یہ تھا کہ اپنے مشرک باپ کے لیے بھی انھوں نے مغفرت کی دعا کی۔ جوا ب دیا گیا کہ ابراہیم بڑے درد مند اور انسانیت کے غم میں گھلنے والے تھے۔ اپنے اس جذبہ کے تحت انھوں نے عہد کرلیاکہ وہ اپنے مشرک باپ کے حق میں خدا سے دعا کریں گے۔ مگر جب وحی نے تنبیہ کی تو اس کے بعد وہ فوراً اس سے باز آگئے۔ اللہ نے ہر آدمی کی اند ربرائی کی فطری تمیز رکھی ہے۔ جب آدمی کے سامنے ایک ایسا پیغام آتاہے جو اس کو برائی سے روکتا ہے تو اس کا وجود اندر سے اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے دل کے اندر ایک خاموش کھٹک پیداہوتی ہے۔ آدمی اگر اس کھٹک کو نظر انداز کردے، وہ فطرت کی گواہی کے باوجود بچنے والی چیز سے نہ بچے تو اس کی فطری حساسیت کمزور پڑ جاتی ہے، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے بالکل مردہ ہوجاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو گم راہ کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔ ’’ہدایت دینے کے بعد گمراہ کرنا‘‘ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس کا خطرہ مسلمانوں کے ليے بھی اسی طرح ہے جس طرح غیر مسلموں کے ليے۔