slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 122 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ۞ وَمَا كَانَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا۟ كَآفَّةًۭ ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍۢ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌۭ لِّيَتَفَقَّهُوا۟ فِى ٱلدِّينِ وَلِيُنذِرُوا۟ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوٓا۟ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ﴾

“With all this, it is not desirable that all of the believers take the field [in time of war]. From within every group in their midst, some shall refrain from going forth to war, and shall devote themselves [instead] to acquiring a deeper knowledge of the Faith. and [thus be able to] teach their home-coming brethren, so that these [too] might guard themselves against evil.”

📝 التفسير:

قرآن کی یہ آیت ایک اعتبار سے زیر بحث صورت حال سے متعلق ہے اور دوسرے اعتبار سے وہ ایک کلی حکم کو بتارہی ہے۔ ایک طرف وہ بتاتی ہے کہ مدینہ کے اطراف میں بسنے والے دیہاتیوں کی تعلیم وتربیت کس طرح کی جائے۔ دوسری طرف اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کا تعلیمی نظام اور نئی نسلوں کے ليے اس کا تربیتی ڈھانچہ کن اصولی بنیادوں پر قائم ہونا چاہیے۔ تعلیم ایک ایسا کام ہے جس میں آدمی کو دوسری مشغولیتوں سے فارغ ہو کر شامل ہونا پڑتا ہے۔ اب اگر سارے لوگ بیک وقت تعلیمی کام میں لگ جائیں تو زندگی کی دوسری سرگرمیاں ، مثلاً حصول معاش کی کوششیں ، متاثر ہوجائیں گی۔ اسلام کا یہ طریقہ نہیں کہ ایک کام کو بگاڑ کر دوسرا کام انجام دیاجائے، اس ليے حکم دیاگیا کہ باری باری کا اصول مقرر کرو۔ کچھ لوگ تعلیم کے مرکز میں آئیں تو کچھ اور لوگ دوسری سرگرمیوں کو انجام دینے میں لگے رہیں ۔ اس طرح دونوں کا م بیک وقت انجام پاتے رہیں گے۔ اس آیت میں اسلامی تعلیم کے ليے تفقہ فی الدین کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مراد معروف فقہی تعلیم نہیں ہے جو شکل دین (بمقابلہ روح دین) کے تفصیلی علم کا نام ہے اور جس کے نتیجہ میں دین کا علم مسائل کے علم کے ہم معنی بن گیا ہے۔ یہاں تفقہ فی الدین کا مطلب خدا کے اتارے ہوئے اساسی دین کو جاننا اور اس میں سمجھ حاصل کرنا ہے۔ اس سے مراد وہ علم ہے جو حق شناسی پیدا کرے جو بنیادی حقیقتوں سے آدمی کو باخبر کرے اور آخرت کی بنیادوں پر زندگی کی تعمیر کرنا سکھائے۔ آیت میں تفقہ فی الدین (تعلیم دین) کا مقصد یہ بتایا گیاہے کہ آدمی قوم کے اوپر انذار کاکام کرنے کے قابل ہوسکے۔ انذار کے معنی ہیں ڈرانا۔ قرآن میں یہ لفظ آخرت کے مسئلہ سے ڈرانے اور ہوشیار کرنے کے ليے آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیم سے ایسے افراد تیار ہوں جو قوموں کے اوپر خدا کی طرف طرف سے منذر بن کر کھڑے ہوسکیں ۔ تاکہ لوگ خدا سے ڈریں اور دنیا کی زندگی میں اس روش سے بچیں جو انھیں آخرت کے ابدی عذاب کی طرف لے جانے والی ہو۔ اسلامی تعلیم دعوت الی اللہ کی تعلیم کا نام ہے، نہ کہ معروف معنوں میں صرف مسائل فقہ یا جزئیات شرع کی تعلیم کا۔ اس اعتبار سے اسلامی تعلیم کا نصاب دو خاص چیزوں پر مشتمل ہونا چاہیے: 1۔ قرآن وسنت 2۔ وہ علوم جو مدعو کی نسبت سے ضروری ہوں ۔ مثلاً مخاطب کی زبان، اس کے طرز فکر اور اس کی نفسیات، وغیرہ۔