slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 123 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قَٰتِلُوا۟ ٱلَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ ٱلْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا۟ فِيكُمْ غِلْظَةًۭ ۚ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ ﴾

“O you who have attained to faith! Fight against those deniers of the truth who are near you, and let them find you adamant; and know that. God is with those who are conscious of Him.”

📝 التفسير:

’’قریب کے منکروں سے جنگ کرو‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اسلامی جدوجہد کوئی بے منصوبہ جدوجہد نہیں ہے بلکہ اس میں ترتیب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پہلے قریب کی رکاوٹوں پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی اور اس کے بعد دور کی رکاوٹوں سے نپٹا جائے گا۔اسی سے یہ بات بھی نکلی کہ سب سے پہلا مجاہدہ خود اپنے نفس سے کیا جانا چاہيے۔ کیوں کہ آدمی کے سب سے قریب اس کا اپنا نفس ہوتا ہے۔ باہر کے دشمنوں کی باری اس کے بعد آتی ہے۔ پھر اسلام دشمنوں سے بھی اولاً جو چیز مطلوب ہے وہ سختی (غلظہ) ہے یعنی وہ مضبوطی جو دشمنوں کے ليے رعب کا باعث بن جائے (إذْ كَانَ ذَلِكَ يُوقِعُ الْمَهَابَةَ لَنَا فِي صُدُورِهِمْ وَالرُّعْبَ فِي قُلُوبِهِمْ ) أحكام القرآن للجصاص، جلد 3، صفحہ 208 ۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ دشمنوں سے مقابلہ کی ساری کارروائی تقویٰ کی بنیاد پر کی جائے۔ تقویٰ (خوف خدا) کی روش ہی مسلمانوں کے ليے نصرت خداوندی کی ضامن ہے۔ تقویٰ سے ہٹتے ہی وہ خدا کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ خدا سے دور ہوجائیں گے، اور خدا ان سے۔ تقویٰ گویا بندے اور خدا کے درمیان نقطۂ ملاقات ہے۔ جب آدمی خدا سے ڈرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس مقام پر لاتا ہے جہاں خدا اسے دیکھنا چاہتا تھا، جہاں خدا نے اسے بلا رکھا تھا۔ ایسی حالت میں تقویٰ ہی آدمی کو خدا کے قریب کرنے والا بن سکتا ہے، نہ کہ کوئی دوسری چیز۔ جب خدا اپنے بندے کو متقی کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس بندے کی طرف کیسے متوجہ ہوگا جو غیر متقی کے روپ میں اس کے سامنے آئے۔ قرآن نے اپنی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ اس کی آیتوں کو سن کر مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر اضافۂ ایمان کا تعلق آدمی کی اپنی قلبی صلاحیت پر ہے، نہ کہ صرف آیتوں کو سن لینے پر۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب قرآن اترا تو اس کے الفاظ ابھی صرف الفاظ تھے، وہ تاریخی واقعہ نہیں بنے تھے۔ اس وقت قرآن کی اہمیت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جو حقیقت کو اس کی مجرد صورت میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ ظاہر پرست منافقین کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی۔ ان کو قرآن کے الفاظ صرف الفاظ معلوم ہوتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ چند الفاظ کا مجموعہ کسی کے یقین و اعتماد میں اضافہ کا سبب کیسے بن جائے گا۔ چنانچہ جب کوئی نئی آیت اترتی تو وہ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ عربی کے ان الفاظ نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا۔ اس بات کو آدمی اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک وہ تاریخ کو حذف کرکے قرآن کو اس کے مجرد روپ میں دیکھنے کی نظر نہ پیدا کرے۔ آج ’’قرآن‘‘ کے لفظ کے ساتھ وہ تمام تاریخی عظمتیں شامل ہوچکی ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت موجود نہ تھیں ، اور بعد کو ہزار سال سے زیادہ عرصہ میں اس کے گرد جمع ہوئیں ۔ مگر زمانۂ نزول میں قرآن کی حیثیت مجرد ایک کتاب کی تھی۔ اس وقت ظاہر بیں انسان اس کو صرف ایک ’’کتاب‘‘ کے روپ میں دیکھتاتھا، نہ کہ تاریخ ساز صحیفہ کے روپ میں ۔ وہ لوگ جو قرآن کو اس کی چھپی ہوئی عظمت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جب وہ قرآن سے غیر معمولی تاثر قبول کرتے تو ظاہر بینوں کی سمجھ میں نہ آتا۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر یہ ایک کتاب ہی تو ہے۔ پھر ایک لفظی مجموعہ میں وہ کون سی خاص بات ہے کہ لوگ اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں ۔ خدا ایسے لوگوں کو بار بار مختلف قسم کے جھٹکے دیتا ہے تاکہ ان کے دل کی حساسیت بڑھے اور وہ باتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ پکڑنے کے قابل ہوجائیں ۔ مگر جب آدمی خود نصیحت نہ لینا چاہے تو کوئی خارجی چیز اس کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔ نصیحت لینے والی کوئی بات سامنے آئے اور آدمی اس کو نظر انداز کردے تو اس کا یہ عمل اس کو نصیحت کے معاملہ میں بے حس بنادیتا ہے۔ ’’وہ ہر سال ایک بار یا دو بار آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں مگر وہ نہ توبہ کرتے اور نہ سبق حاصل کرتے‘‘۔ یہاں آزمائش سے مراد قحط، مرض، بھوک وغیرہ میں مبتلا کیا جانا ہے۔ اس قسم کی آفتیں آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتی ہیں مگر وہ ان سے توبہ اور عبرت کی غذا نہیں لیتا— توبہ حقیقۃً تذکرّکے نتیجہ کا دوسرا نام ہے۔ ہر آدمی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ سال میں ایک دو بار ضرور کچھ غیر معمولی واقعات پیش آتے ہیں ۔ یہ واقعات خدائی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ کبھی وہ خدا کے مقابلے میں انسان کی بے چارگی کو یاد دلاتے ہیں ۔ کبھی وہ آخرت کے مقابلے میں موجودہ دنیا کی بے وقعتی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ایسے مواقع آدمی کے لیے اِس بات کا امتحان ہوتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے لیے سبق بنائے، وہ مادی واقعات میں غیر مادی حقائق کو دیکھ لے۔ سبق والی چیز سے آدمی سبق کیوں نہیں لے پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے مربوط نہیں کرپاتا۔ دنیا کے واقعات سے سبق لینے کے لیے یہ صلاحیت درکار ہے کہ آدمی ایک بات کو دوسری بات سے جوڑ کر دیکھنا جانتا ہو۔ وہ ظاہری واقعہ کو چھپی ہوئی حقیقت سے ملا کر دیکھ سکے۔ وہ پیش آنے والی چیز کے آئینہ میں اس چیز کو پڑھ سکے جو ابھی پیش نہیں آئی۔