At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌۭ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴾
“INDEED, there has come unto you [O mankind] an Apostle from among yourselves: heavily weighs -upon him [the thought] that you might suffer [in the life to come]; full of concern for you [is he, and] full of compassion and mercy towards the believers.”
اِس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تصویر بتائی گئی ہے کہ اسلام کی جدوجہد میں ان کاسارا اعتماد صرف ایک اللہ پر ہے۔ وہ لوگوں کو جس خدا کی طرف بلانے کے لیے اٹھے ہیں وہ ایسا خدا ہے جو سارے اقتدار کا مالک ہے۔ تمام خزانوں کی کنجیاں اس کے پاس ہیں ۔ رسول اسی ایمان ویقین کی زمین پر کھڑا ہواہے۔اس لیے بالکل فطری ہے کہ اس کا سارا بھروسہ صرف ایک خدا پر ہو۔ وہ ہر قسم کی مصلحتوں اور اندیشوں سے بے پروا ہو کر حق کی خدمت میں لگا رہے۔ پھر یہ بتایا کہ خدا کا رسول لوگوں کے حق میں حد درجہ شفیق اور مہربان ہے۔ وہ دوسروں کی تکلیفوں پر اس طرح کڑھتا ہے جیسے کہ وہ تکلیف خود اس کے اوپر پڑی ہو۔ وہ حرص کی حد تک لوگوں کی ہدایت کا طالب ہے۔ دعوتِ حق کی جدوجہد کے لیے اس کو جس چیز نے متحرک کیا ہے، وہ سراسرخیر خواہی کا جذبہ ہے، نہ کہ کوئی شخصی حوصلہ یا قومی مسئلہ— وہ خود لوگوں کی بھلائی کے لیے اٹھا ہے، نہ کہ اپنی ذاتی بھلائی کے لیے۔ عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: لوگ پروانوں کی طرح آگ میں گر رہے ہیں اور مَیں ان کی کمر پکڑ کر ان کو آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں (أَلَا وَإِنِّي آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ أَنْ تَهَافَتُوا فِي النَّارِ كَتَهَافُتِ الْفَرَاشِ، أَوِ الذُّبَابِ) مسند احمد، حدیث نمبر 3704۔ رسول کی اس تصویر کی شکل میں حق کے داعی کی تصویر ہمیشہ کے لیے بتادی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کے داعی کے اندر دو خاص صفات نمایاں طورپر ہونی چاہئیں ۔ ایک یہ کہ اس کا بھروسہ صرف ایک اللہ پر ہو۔ دوسري یہ کہ مدعو کے لیے اس کے دل میں صرف محبت اور خیر خواہی کا جذبہ ہو، اس کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ اگرچہ مدعو کی طرف سے طرح طرح کی شکایتیں پیش آتی ہیں ۔ اس کے اور داعی کے درمیان قومی اور مادی جھگڑے بھی ہوسکتے ہیں ۔ ان سب کے باوجود یہ مطلوب ہے کہ داعی ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرے اور مدعو کے لیے رحمت و رافت کے سوا کوئی اور جذبہ اپنے اندر پیدا نہ ہونے دے۔ داعی کو رد عمل کی نفسیات سے بلند ہونا پڑتا ہے۔ اس کو یک طرفہ طورپر ایسا کرنا پڑتا ہے کہ وہ مدعو کا خیر خواہ بنے، خواہ مدعو نے اس کے خلاف کتنا ہی زیادہ قابلِ شکایت رویہ کیوں نہ اختیار کیا ہو۔ داعی خداکے لیے جیتاہے اور مدعو اپنی ذات کے لیے۔ ابتداء ًاسلام میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ان کے لیے آپ کا ساتھ دینا اپنی بنی بنائی زندگی کو اجاڑ دینے کے ہم معنی بن گیا۔ اس سے کچھ لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا ہوا کہ رسول ہمارے ليے مصیبت بن کر آیا ہے۔ مگر یہ وہی بات ہے جو عین مطلوب ہے۔ حق کی دعوت اسی لیے اٹھی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کا مصرف آخرت کی دنیا ہے، نہ کہ موجودہ دنیا۔ اس لیے اگر رسول کا لایا ہوا دین اختیار کرنے میں دنیوی نقشہ بگڑتا ہوا نظر آئے تو اس پر آدمی کو مطمئن رہنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی متاع کو خدا نے آخرت کے ليے قبول کرلیا۔