At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا۟ وَلَمَّا يَعْلَمِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ جَٰهَدُوا۟ مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلَا رَسُولِهِۦ وَلَا ٱلْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةًۭ ۚ وَٱللَّهُ خَبِيرٌۢ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾
“Do you [O believers] think that you will be spared unless God takes cognizance of your having striven hard [in His cause] without seeking help from any but God and His Apostle and those who believe in Him? For, God is aware of all that you do.”
موجودہ دنیا میں آدمی جب کسی چیز کو اپنی زندگی کا مقصد بناتاہے تو اس کو حاصل کرنے میں طرح طرح کے مسائل اور تقاضے سامنے آتے ہیں ۔ اگر آدمی کو اپنا مقصد عزیز ہے تو وه ان مسائل کو عبور کرنے اور ان تقاضوں کو پورا کرنے میں اپنی ساری قوت لگا دیتاہے۔ اسی کا نام جہاد ہے۔ یہ جہاد اس دنیا میں ہر ایک کو پیش آتا ہے۔ ہر آدمی کو جہاد کی سطح پر اپنی طلب کا ثبوت دینا پڑتاہے اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ اپنی طلب میں کامیاب ہو۔ فرق یہ ہے کہ غیر مومن دنیا کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور مومن آخرت کی راہ میں ۔ یہی جہاد یہ ثابت کرتاہے کہ آدمی اپنے مقصد میں کتنا سنجیدہ ہے۔ ایک شخص جو ایمان کا مدعی ہو اس کے سامنے بار بار مختلف مواقع آتے ہیں جو اس کے دعوے کا امتحان ہوں ۔ کبھی اس کا دل کسی کے خلاف بغض وحسد کے جذبات سے متاثر ہونے لگتا ہے اور اس کا ایمان اس سے کہتا ہے کہ اس قسم کے تمام جذبات کو اپنے اندر سے نکال دو۔ کبھی اس کی زبان پر ناپسندیدہ کلمات آتے ہیں اور ایمان کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ اس وقت اپنی زبان کو پکڑ لیا جائے۔ کبھی معاملات کے دوران کسی کو ایسا حق دینا پڑتاہے جو قلب کو بالکل ناگوار ہو مگر ایمان یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ حق دار کو انصاف کے مطابق اس کاپورا حق پہنچایا جائے۔ اسی طرح اسلام کی دعوت کبھی ایسے موڑ پر پہنچ جاتی ہے کہ ایمان یہ کہتا ہے کہ اس کو کامیاب بنانے کے ليے اپنی جان ومال قربان کردو۔ ایسے تمام مواقع پر گریز یا فرار سے بچنا اورہر قیمت پر ایمان واسلام کے تقاضے پورے کرتے رہنا، اسی کا نام جہاد ہے۔ جب کوئی شخص اسلام کے ليے مجاہدبن جائے تو اس کا تمام تر نفسیاتی تعلق اللہ اور رسول اور اہل ایمان سے ہوجاتا ہے۔ وہ ان کے سوا کسی کو اپنا ولیجہ نہیں بناتا۔ وَلَجَ کے معنی ہیں داخل ہونا۔ ولیجہ کسی وادی کے اس غار کو کہتے ہیں جہاں راستہ چلنے والے بارش وغیرہ سے پناہ لیں ۔ اسی سے ولیجہ ہے، یعنی ولی دوست۔ موجودہ دنیا میں جب بھی آدمی کسی وسیع تر مقصد کو اپناتا ہے تو اس کو لازماً ایساکرنا پڑتاہے کہ وہ اپنے مقصد کی مرکزیت سے وابستہ ہو۔ وہ اپنے قائد کا مکمل وفادار بنے۔ وہ اس راہ کے ساتھیوں سے پوری طرح جڑ جائے۔ مقصدیت کے احساس کے ساتھ یہ چیزیں لازم و ملزوم ہیں ۔ ان کے بغیر با مقصد زندگی کا دعویٰ بالکل جھوٹا ہے۔ اسی طرح آدمی جب دین کو سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی میں داخل کرے گا تو لازمی طورپر ایسا ہوگا کہ خدا اور رسول اور اہلِ ایمان اس کا ’’ولیجہ‘‘ بن جائیں ۔ وہ ہر اعتبار سے ان کے ساتھ جڑ جائے گا۔ سنجیدگی کے ساتھ دین اختیار کرنے والے کے ليے اللہ اور رسول اور اہل ایمان، عملی طور پر، ایسی وحدت کے اجزاء ہیں جن کے درمیان تقسیم ممکن نہیں ۔ اس معاملہ کی نزاکت بہت بڑھ جاتی ہے جب یہ سامنے رکھا جائے کہ اس کی جانچ کرنے والا وہ ہے جس کو کھلے اور چھپے کا علم ہے، وہ ہر آدمی سے اس کی حقیقت کے اعتبار سے معاملہ کرے گا، نہ کہ اس کے ظاہری رویہ کے اعتبار سے۔