slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 25 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ لَقَدْ نَصَرَكُمُ ٱللَّهُ فِى مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍۢ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْـًۭٔا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ ٱلْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ ﴾

“Indeed, God has succoured you on many battlefields, [when you were few;] and [He did so, too,] on the Day of Hunayn, when you took pride in your great numbers and they proved of no avail whatever to you -for the earth, despite all its vastness, became [too] narrow for you and you turned back, retreating:”

📝 التفسير:

مسلمانوں کا غلبہ کافروں کو ان کے کفر کی سزا کا اگلا نتیجہ ہے۔ مگر کافروں کا کفر مسلمانوں کے اسلام کی نسبت سے متحقق ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اپنی اسلامیت کھودیں تو کافروں کا کفر کس چیز کے مقابلہ میں ثابت ہوگا اور کس بنیاد پر خدا وہ تفریقي معاملہ کرے گا جو ایک کے ليے انعام بنے اور دوسرے کے ليے سزا۔ رمضان 8ھ؁ميں مسلمانوں نے قریش کو کامیاب طورپر مغلوب کرکے مکہ کو فتح کیا۔ مگر اگلے ہی مہینہ شوال 8ھ ؁ میں ان کو ہوازن وثقیف کے مشرک قبائل کے مقابلہ میں شکست ہوئی، جب کہ فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی اورہوازن وثقیف سے مقابلہ کے وقت بارہ ہزار۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش سے مقابلہ کے وقت مسلمان صرف اللہ کے بھروسے پر نکلے تھے۔ مگر ہوازن وثقیف کے مقابلہ پر نکلتے ہوئے انھیں یہ ناز ہوگیا کہ اب تو ہم فاتح ِمکہ ہیں ۔ ہمارے ساتھ بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ہے، آج ہم کو کون شکست دے سکتاہے۔ جب وہ خدا کے اعتماد پر تھے تو انھیں کامیابی ہوئی، جب ان کو اپنی ذات پر اعتماد ہوگیا تو انھیں شکست کا سامناکرنا پڑا۔ اپنی ذات پر بھروسہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا جذبہ ابھارتا ہے جس کے نتیجہ میں خارجی حقیقتوں سے بے پروائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ نظم کی پابندی میں کوتاہ ہوجاتا ہے۔ وہ بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے غیرحقیقت پسندانہ اقدام کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ اس عالم اسباب میں لازمی شکست ہے۔ اس کے برعکس خدا پر بھروسہ سب سے بڑی طاقت پر بھروسہ ہے۔ اس سے آدمی کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ انتہائی حقیقت پسندانہ بن جاتا ہے۔ اور حقیقت پسندی بلا شبہ تمام کامیابیوں کی جڑ ہے۔ ابتداء ً جب یہ حکم آیا کہ حرم میں مشرکوں کا داخلہ بندکردو تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی کیوں کہ غیر زرعی ملک ہونے کی وجہ سے عرب کی اقتصادیات کا انحصار تجارت پر تھا اور تجارت کی بنیاد ہمیشہ مشترکہ تعلقات پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے سوچا کہ جب حرم میں مشرکین کا آنا بندہوگا تو ان کے ساتھ تجارتی رشتے بھی ٹوٹ جائیں گے۔ مگر ان کی نظر اس امکان پر نہیں گئی کہ آج کے مشرک کل کے مسلمان ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ یہی ہوا۔ عربوں کے عمومی طورپر اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں دوبارہ نئی صورت سے بحال ہوگئیں ۔ نیز اس ابتدائی قربانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر اسلام ایک بین اقوامی دین بن گیا۔ جو معاشی دروازے مقامی سطح پر بند ہوتے نظر آتے تھے وہ عالمی سطح پر کھل گئے۔