At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ثُمَّ أَنزَلَ ٱللَّهُ سَكِينَتَهُۥ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ وَعَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُودًۭا لَّمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَآءُ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴾
“whereupon God bestowed from on high His [gift of] inner peace upon His Apostle and upon the believers, and bestowed [upon you] from on high forces which you could not see, and chastised those who were bent on denying the truth: for such is the recompense of all who deny the truth!”
مسلمانوں کا غلبہ کافروں کو ان کے کفر کی سزا کا اگلا نتیجہ ہے۔ مگر کافروں کا کفر مسلمانوں کے اسلام کی نسبت سے متحقق ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اپنی اسلامیت کھودیں تو کافروں کا کفر کس چیز کے مقابلہ میں ثابت ہوگا اور کس بنیاد پر خدا وہ تفریقي معاملہ کرے گا جو ایک کے ليے انعام بنے اور دوسرے کے ليے سزا۔ رمضان 8ھميں مسلمانوں نے قریش کو کامیاب طورپر مغلوب کرکے مکہ کو فتح کیا۔ مگر اگلے ہی مہینہ شوال 8ھ میں ان کو ہوازن وثقیف کے مشرک قبائل کے مقابلہ میں شکست ہوئی، جب کہ فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی اورہوازن وثقیف سے مقابلہ کے وقت بارہ ہزار۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش سے مقابلہ کے وقت مسلمان صرف اللہ کے بھروسے پر نکلے تھے۔ مگر ہوازن وثقیف کے مقابلہ پر نکلتے ہوئے انھیں یہ ناز ہوگیا کہ اب تو ہم فاتح ِمکہ ہیں ۔ ہمارے ساتھ بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ہے، آج ہم کو کون شکست دے سکتاہے۔ جب وہ خدا کے اعتماد پر تھے تو انھیں کامیابی ہوئی، جب ان کو اپنی ذات پر اعتماد ہوگیا تو انھیں شکست کا سامناکرنا پڑا۔ اپنی ذات پر بھروسہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا جذبہ ابھارتا ہے جس کے نتیجہ میں خارجی حقیقتوں سے بے پروائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ نظم کی پابندی میں کوتاہ ہوجاتا ہے۔ وہ بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے غیرحقیقت پسندانہ اقدام کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ اس عالم اسباب میں لازمی شکست ہے۔ اس کے برعکس خدا پر بھروسہ سب سے بڑی طاقت پر بھروسہ ہے۔ اس سے آدمی کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ انتہائی حقیقت پسندانہ بن جاتا ہے۔ اور حقیقت پسندی بلا شبہ تمام کامیابیوں کی جڑ ہے۔ ابتداء ً جب یہ حکم آیا کہ حرم میں مشرکوں کا داخلہ بندکردو تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی کیوں کہ غیر زرعی ملک ہونے کی وجہ سے عرب کی اقتصادیات کا انحصار تجارت پر تھا اور تجارت کی بنیاد ہمیشہ مشترکہ تعلقات پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے سوچا کہ جب حرم میں مشرکین کا آنا بندہوگا تو ان کے ساتھ تجارتی رشتے بھی ٹوٹ جائیں گے۔ مگر ان کی نظر اس امکان پر نہیں گئی کہ آج کے مشرک کل کے مسلمان ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ یہی ہوا۔ عربوں کے عمومی طورپر اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں دوبارہ نئی صورت سے بحال ہوگئیں ۔ نیز اس ابتدائی قربانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر اسلام ایک بین اقوامی دین بن گیا۔ جو معاشی دروازے مقامی سطح پر بند ہوتے نظر آتے تھے وہ عالمی سطح پر کھل گئے۔