At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلْأَحْبَارِ وَٱلرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ ۗ وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍۢ ﴾
“O you who have attained to faith! Behold, many of the rabbis and monks do indeed wrongfully devour men's possessions and turn [others] away from the path of God. But as for all who lay up treasures of gold and silver and do not spend them for the sake of God - give them the tiding of grievous suffering [in the life to come]:”
دوسرے کا مال لینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کوحق کے مطابق لیا جائے۔ یعنی آدمی دوسرے کی کوئی واقعی خدمت کرے یا اس کو کوئی حقیقی نفع پہنچائے اور اس کے بدلے میں اس کا مال حاصل کرے۔ یہ بالکل جائز ہے۔ باطل طریقے سے دوسرے کا مال لینا یہ ہے کہ دوسرے کو دھوکے میں ڈال کر اس کا مال حاصل کیا جائے۔ یہ دوسرا طریقہ ناجائز ہے اور خدا کے غضب کو بھڑکانے والا ہے۔ باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھانا وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں استحصال (exploitation) کہا جاتاہے۔یہود کے اکابر بہت بڑے پیمانہ پر اپنے عوام کا مذہبی استحصال کررہے تھے۔ وہ عوام میں ایسی جھوٹی کہانیاں پھیلائے ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں لوگ بزرگوں سے غیر معمولی امیدیں وابستہ کریں اور پھر ان کو بزرگ سمجھ کر ان کی برکت لینے کے لیے آئیں اور انھیں ہديے اور نذرانے پیش کریں ۔ وہ خدا کے دین کی خدمت کے نام پر لوگوں سے رقمیں وصول کرتے تھے، حالاں کہ جو دین وہ لوگوں کے درمیان تقسیم کررہے تھے وہ ان کا اپنا بنایا ہوا دین تھا، نہ کہ حقیقۃً خدا کا اتارا دین۔ وہ ملت یہود کے احیاء کے نام پر بڑے بڑے چندے وصول کرتے تھے، حالاں کہ احیاء ملت کے نام پر جو کچھ کررہے تھے وہ صرف یہ تھا کہ لوگوں کو خوش خیالیوں میں الجھا کر انھیں اپنی قیادت کے لیے استعمال کرتے رہیں ۔ وہ تعویذ گنڈے میں پُراسرار اوصاف بتا کر ان کو لوگوں کے ہاتھوں فروخت کرتے تھے۔ حالاں کہ ان کا حال یہ تھا کہ خود اپنے نازک معاملات میں وہ کبھی ان تعویذ گنڈوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ آدمی کے پاس جو مال آتا ہے اس کے دو ہی جائز مصرف ہیں ۔ اپنی واقعی ضرورتوں میں خرچ کرنا، اور جو کچھ واقعی ضرورت سے زائد ہو ا س کو خدا کے راستہ میں دے دینا۔ اس کے علاوہ جو طریقے ہیں وہ سب آدمی کے ليے عذاب بننے والے ہیں ۔ خواہ وہ اپنے مال کو فضول خرچیوں میں اڑاتا ہو یا اس کو جمع کرکے رکھ رہا ہو۔ جو لوگ یہود کی طرح خود ساختہ مذہب کی بنیاد پر کسی گروہ کے اوپر اپنی قیادت قائم كيے ہوئے ہوں اور خدا کے دین کے نام پر لوگوں کا استحصال کررہے ہوں وہ کسی ایسی دعوت کو سخت ناپسند کرتے ہیں جو خداکے سچے اور بے آمیز دین کو زندہ کرنا چاہتی ہو۔ ایسے دین میں انھیں اپنی مذہبی حیثیت بے اعتبار ہوتی نظر آتی ہے۔ انھیں دکھائی دیتا ہے کہ اگر اس کو عوام میں فروغ حاصل ہو تو ا ن کی مذہبی تجارت بالکل بے نقاب ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے گی۔ وہ ایسی تحریک کے اٹھتے ہی اسے سونگھ لیتے ہیں اور اس کے مخالف بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔