At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِى نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا۟ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ﴾
“on the Day when that [hoarded wealth] shall be heated in the fire of hell and their foreheads and their sides and their backs branded therewith, [those sinners shall be told:] "These are the treasures which you have laid up for yourselves! Taste, then, [the evil of] your hoarded treasures!"”
دوسرے کا مال لینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کوحق کے مطابق لیا جائے۔ یعنی آدمی دوسرے کی کوئی واقعی خدمت کرے یا اس کو کوئی حقیقی نفع پہنچائے اور اس کے بدلے میں اس کا مال حاصل کرے۔ یہ بالکل جائز ہے۔ باطل طریقے سے دوسرے کا مال لینا یہ ہے کہ دوسرے کو دھوکے میں ڈال کر اس کا مال حاصل کیا جائے۔ یہ دوسرا طریقہ ناجائز ہے اور خدا کے غضب کو بھڑکانے والا ہے۔ باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھانا وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں استحصال (exploitation) کہا جاتاہے۔یہود کے اکابر بہت بڑے پیمانہ پر اپنے عوام کا مذہبی استحصال کررہے تھے۔ وہ عوام میں ایسی جھوٹی کہانیاں پھیلائے ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں لوگ بزرگوں سے غیر معمولی امیدیں وابستہ کریں اور پھر ان کو بزرگ سمجھ کر ان کی برکت لینے کے لیے آئیں اور انھیں ہديے اور نذرانے پیش کریں ۔ وہ خدا کے دین کی خدمت کے نام پر لوگوں سے رقمیں وصول کرتے تھے، حالاں کہ جو دین وہ لوگوں کے درمیان تقسیم کررہے تھے وہ ان کا اپنا بنایا ہوا دین تھا، نہ کہ حقیقۃً خدا کا اتارا دین۔ وہ ملت یہود کے احیاء کے نام پر بڑے بڑے چندے وصول کرتے تھے، حالاں کہ احیاء ملت کے نام پر جو کچھ کررہے تھے وہ صرف یہ تھا کہ لوگوں کو خوش خیالیوں میں الجھا کر انھیں اپنی قیادت کے لیے استعمال کرتے رہیں ۔ وہ تعویذ گنڈے میں پُراسرار اوصاف بتا کر ان کو لوگوں کے ہاتھوں فروخت کرتے تھے۔ حالاں کہ ان کا حال یہ تھا کہ خود اپنے نازک معاملات میں وہ کبھی ان تعویذ گنڈوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ آدمی کے پاس جو مال آتا ہے اس کے دو ہی جائز مصرف ہیں ۔ اپنی واقعی ضرورتوں میں خرچ کرنا، اور جو کچھ واقعی ضرورت سے زائد ہو ا س کو خدا کے راستہ میں دے دینا۔ اس کے علاوہ جو طریقے ہیں وہ سب آدمی کے ليے عذاب بننے والے ہیں ۔ خواہ وہ اپنے مال کو فضول خرچیوں میں اڑاتا ہو یا اس کو جمع کرکے رکھ رہا ہو۔ جو لوگ یہود کی طرح خود ساختہ مذہب کی بنیاد پر کسی گروہ کے اوپر اپنی قیادت قائم كيے ہوئے ہوں اور خدا کے دین کے نام پر لوگوں کا استحصال کررہے ہوں وہ کسی ایسی دعوت کو سخت ناپسند کرتے ہیں جو خداکے سچے اور بے آمیز دین کو زندہ کرنا چاہتی ہو۔ ایسے دین میں انھیں اپنی مذہبی حیثیت بے اعتبار ہوتی نظر آتی ہے۔ انھیں دکھائی دیتا ہے کہ اگر اس کو عوام میں فروغ حاصل ہو تو ا ن کی مذہبی تجارت بالکل بے نقاب ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے گی۔ وہ ایسی تحریک کے اٹھتے ہی اسے سونگھ لیتے ہیں اور اس کے مخالف بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔