slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 37 من سورة سُورَةُ التَّوۡبَةِ

At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ إِنَّمَا ٱلنَّسِىٓءُ زِيَادَةٌۭ فِى ٱلْكُفْرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يُحِلُّونَهُۥ عَامًۭا وَيُحَرِّمُونَهُۥ عَامًۭا لِّيُوَاطِـُٔوا۟ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ فَيُحِلُّوا۟ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ ۚ زُيِّنَ لَهُمْ سُوٓءُ أَعْمَٰلِهِمْ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴾

“The intercalation [of months] is but one more instance of [their] refusal to acknowledge the truth- [a means] by which those who are bent on denying the truth are led astray. They declare this [intercalation] to be permissible in one year and forbidden in [another] year, in order to conform [outwardly] to the number of months which God has hallowed: and thus they make allowable what God has forbidden. Goodly seems unto them the evil of their own doings, since God does not grace with His guidance people who refuse to acknowledge the truth.”

📝 التفسير:

دینی احکام پر ہر شخص الگ الگ بھی عمل کرسکتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ تمام اہل ایمان ایک ساتھ ان پر عمل کریں تا کہ ان میں اجتماعیت پیدا ہو۔ اسی اجتماعیت کے مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر عبادات کی ادائیگی کے ليے متعین اوقات اور تاریخیں مقرر کی گئی ہیں ۔ یہ تاریخیں اگر شمسی کیلنڈر کے اعتبار سے رکھی جائیں تو ان کے زمانہ میں یکسانیت آجاتی ۔ مثلاً روزہ ہمیشہ ایک موسم میں آتا اور حج ہمیشہ ایک موسم میں ۔ مگر یکسانیت آدمی کے اندر جمود پیدا کرتی ہے اور تبدیلی سے نئی قوت عمل بیدار ہوتی ہے۔ اس بنا پر دینی امور کے اجتماعی نظام کے ليے چاند کا قدرتی کیلنڈر اختیار کیا گیا۔ اسی اصول کی وجہ سے حج کی تاریخیں مختلف موسموں میں آتی ہیں ، کبھی سردیوں میں اور کبھی گرمیوں میں ۔ قدیم زمانہ میں جب کہ حج کا اجتماع زبردست تجارتی اہمیت رکھتا تھا۔ مختلف موسموں میں حج کا آنا تجارتی اعتبار سے مضر معلوم ہوا۔ اہل عرب کو دینی مصلحتوں کے مقابلہ میں دنيوی مصلحتیں زیادہ اہم نظر آئیں ۔ انہوں نے چاہا کہ ایسی صورت اختیار کریں کہ حج کی تاریخ ہمیشہ ایک ہی موافق موسم میں پڑے۔ اس موقع پر یہودو نصاریٰ کا کبیسہ کاحساب ان کے علم میں آیا۔ اپنی خواہشوں کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے وہ ان کو پسند آگیا اور انہوں نےاس کو اپنے یہاں رائج کرلیا۔ یعنی مہینو ں کو ہٹا کر ایک کی جگہ دوسرے کو رکھ دینا۔ مثلاً محرم کو صفر کی جگہ کردینا اور صفر کو محرم کی جگہ۔ نسئی کے اس طریقے سے اہل عرب کو دو فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ حج کے موسم کو تجارتی تقاضے کے مطابق کرلینا۔ دوسرے یہ کہ حرام مہینوں ( محرم، رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ) میں کسی کے خلاف لڑائی چھیڑنا ہو تو حرام مہینہ کی جگہ غیر حرام مہینہ رکھ کر لڑائی کو جائز كرلینا۔ اہل عرب کے سامنے حضرت ابراہیم کا طریقہ بھی تھا۔ مگر ان کے ذہن پر چونکہ تجارتی مقاصد اور قبائلی تقاضوں کا غلبہ تھا۔ اس ليے ان کونسئی کا طریقہ زیادہ اچھا معلوم ہوا اور انہوں نے اپنے معاملات کے ليے اس کو اختیار کرلیا۔ ’’تم بھی مل کر لڑو جس طرح وہ مل کر لڑتے ہیں ‘‘۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ خدا سے بے خوفی پر متحد ہوجاتے ہیں ، تم خدا سے خوف ( تقویٰ) پر متحد ہوجاؤ۔ وہ منفی مقاصد کے ليے باہم جڑ جاتے ہیں تم مثبت مقاصد کے ليے آپس میں جڑجاؤ۔ وہ دنیا کی خاطر ایک ہوجاتے ہیں تم آخرت کی خاطر ایک ہوجاؤ۔