At-Tawba • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ ٱنفِرُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱثَّاقَلْتُمْ إِلَى ٱلْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا مِنَ ٱلْءَاخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَٰعُ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا فِى ٱلْءَاخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ﴾
“O YOU who have attained to faith! What is amiss with you that, when you are called upon, "Go forth to war in God's cause," you cling heavily to the earth? Would you content yourselves with [the comforts of] this worldly life in preference to [the good of] the life to come? But the enjoyment of life in this world is but a paltry thing when compared with the life to come!”
یہ آیتیں غزوہ تبوک (9 ھ) کے ذیل میں اتریں ۔ اس موقع پر مدینہ کے منافقین کی طرف سے جو عمل ظاہر ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمزور ایمان والے لوگ جب کسی اسلامی معاشرہ میں داخل ہوجاتے ہیں تو نازک مواقع پر ان کا کردار کیا ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسلام سے تعلق کے دو درجے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسی سے آدمی کی تمام وفاداریاں وابستہ ہوجائیں ۔ وہ آدمی کے ليے زندگی وموت کا مسئلہ بن جائے۔ دوسرے یہ کہ آدمی کی حقیقی دلچسپیاں تو کہیں اور اٹکی ہوئی ہوں اور اوپری طور پر وہ اسلام کا اقرار کرلے۔ پہلی قسم کے لوگ سچے مومن ہیں اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو شریعت کی اصطلاح میں منافق کہاگیا ہے۔ مومن کا حال یہ ہوتاہے کہ عام حالات میں بھی وہ اسلام کو پکڑے ہوئے ہوتا ہے اور قربانی کے لمحات میں بھی وہ پوری طرح اس پر قائم رہتا ہے۔ اس کے برعکس، منافق کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ بے ضرر اسلام یا نمائشی دین داری میں تو بہت آگے دکھائی دیتا ہے۔ مگر جب قربانی کی سطح پر اسلام کے تقاضوں کو اختیار کرنا ہو تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مومن کے سامنے اصلاً آخرت ہوتی ہے ا ور منافق کے سامنے اصلاً دنیا۔ مومن آخرت کی بے پایاں نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا، اس ليے جب بھی دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز اس کے راستہ میں حائل ہو تو وہ اس کو نظر انداز کرکے دین کی طرف بڑھ جاتاہے۔ اس کے برعکس، منافق ایسے اسلام کو پسند کرتاہے جس میں دنیا کو بگاڑے بغیر اسلامیت کا کریڈٹ مل رہا ہو۔ اس ليے جب ایسا موقع آتا ہے کہ دنیا کو کھو کر اسلام کو پانا ہو تو وہ دنیا کی طرف جھک جاتا ہے، خواہ اس کے نتیجہ میں اسلام کی رسی اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اسلام اور غیر اسلام کی کش مکش کے جو لمحات موجودہ دنیا میں آتے ہیں وہ بظاہر دیکھنے والوں کو اگرچہ دو انسانی گروہوں کی کش مکش دکھائی دیتی ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک خدائی معاملہ ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر خود خدا اسلام کی طرف سے کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے کسی واقعہ کو اسباب کے روپ میں اس ليے ظاہر کیا جاتاہے تاکہ ان لوگوں کو خدمتِ دین کا کریڈٹ دیا جائے جو اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کرچکے ہیں ۔